021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رفاہی ادارے میں جمع شدہ رقوم سے ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر انتظامی اخراجات لینے کا حکم
71241زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

میں گزشتہ چند سالوں سے ایک رفاہی ادارےکے ساتھ منسلک ہوں ، جس میں لوگ اپنی زکوۃ ،خیرات اور فدیہ وغیرہ ہمیں دیتے ہیں  اور ہم ان کی یہ رقم ہر ممکن تحقیق اور چھان بین کے بعد آگے مستحق افراد تک پہچانتے ہیں ۔ از راہ کرم یہ رہنمائی فرمائیں کہ فاؤنڈیشن کے اخراجات جیسے آفس کا کرایہ ،ملازمین اور دیگر عملے کی تنخواہیں ،فاؤنڈیشن کے  لیے کسی کمپنی کا سفر اور دیگر انتظامی اخراجات کس حد تک ان جمع شدہ  رقوم سے کرسکتے ہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ایک فلاحی ادارہ چلانا انتہائی ذمہ داری کا کام ہے ۔اس کی بنیاد امانت پر ہے ۔ ایک فلاحی ادارے میں رقوم مختلف مدات میں جمع کروائی جاتی ہیں ۔ ہر رقم کا حکم الگ ہے ۔اس لیے ادارہ پرلازم ہے کہ ہر مد میں جمع کروائی گئی رقم کو دوسرے سے ممتاز کرکے رکھے ،تاکہ اس کو صحیح مصرف میں خرچ کیا  جاسکے ۔  عام طور پر ایک فلاحی ادارے میں  تین طرح کی رقوم جمع کروائی جاتی ہیں :

1۔ صدقات واجبہ،جیسے زکوۃ  ،فدیہ اور صدقۃ الفطر وغیرہ۔

2۔ صدقات نافلہ ،جیسے نفلی صدقات ،عطیہ ،ہبہ وغیرہ ۔

3۔ کسی خاص مقصد کے لیے دی گئی رقوم ۔

صدقات واجبہ  کے لیے ضروری ہے کہ وہ رقوم کسی مستحق زکوۃ شخص کو باقاعدہ مالک بناکر دی جائیں ۔ صدقات واجبہ سے ملازمین کی تنخواہیں اور ادارہ   کی عمارت کا کرایہ وغیرہ ادا  کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس سے ان کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ البتہ عمومی عطیات  ،عطیہ دہندگان کی طرف سے کسی بھی مصرف میں خرچ کیے جاسکتے ہیں ۔اس سے ملازمین کی تنخواہیں ،عمارت کا کرایہ اور دیگر ضروری اخراجات  حسب ضرورت کیے جاسکتے ہیں ۔

البتہ عطیہ دہندگان کی طرف سے جو رقم کسی خاص مصرف میں خرچ کرنے کے لیے دی گئی ہو، اس کو اسی مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہے ۔ اس لیے کہ ادارہ عطیہ دہندگان کی طرف سے مال کو خرچ کرنے کاوکیل ہوتا ہے ۔ اور کیل  کے لیے مؤکل کے حکم کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 257)
وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه
(قوله: خرج الإباحة) فلا تكفي فيها، وأما الكفارة فلم تخرج بقيد التمليك لأن الشرط فيها التمكين وهو صادق بالتمليك، وإن صدق بالإباحة أيضا، نعم تخرج بقوله جزء مال إلخ فافهم (قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم
الفتاوى الهندية - (3 / 564)
ويجوز التوكيل بالبياعات والأشربة والإجارات والنكاح والطلاق والعتاق والخلع والصلح والإعارة والاستعارة والهبة والصدقة والإيداع وقبض الحقوق والخصومات وتقاضي الديون والرهن والارتهان كذا في الذخيرة.
الفتاوى الهندية - (3 / 566)
(وأما حكمها) فمنه قيام الوكيل مقام الموكل فيما وكله به، ولا يجبر الوكيل في إتيان ما وكل به إلا في دفع الوديعة بأن قال له: ادفع هذا الثوب إلى فلان فقبله وغاب الآمر، يجبر المأمور على دفعه هكذا في محيط السرخسي.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 129)
(قوله ولا يبنى بها مسجد ولا يكفن بها ميت) لانعدام التمليك منه وهو الركن والدليل على أن التمليك لا يتحقق في تكفين الميت أن الذئب لو أكل الميت يكون الكفن للمكفن لا للوارث كذا في النهاية وكذا لا يقضى بها دين ميت ولا يبنى بها السقايات ولا تحفر بها الآبار ولا يجوز إلا أن يقبضها فقير أو يقبضها له ولي أو وكيل لأنها تمليك ولا بد فيها من القبض ولهذا لا يجوز له إطعامها بطريق الإباحة وإن قضى بها دين حي إن كان بغير أمره لا يجوز وإن كان بأمره جاز إذا كان فقيرا وكأنه تصدق بها عليه ويكون القابض كالوكيل له في قبض الصدقة

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

11 جمادی الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب