021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مجلس میں تحریراً طلاق دینے کا حکم
71285طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

شوہرنے پہلی بیوی کی ناراضگی کی وجہ سے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور محمد ٫٫٫٫٫٫٫کی صاحبزادی عطیہ سے رشتہ طے ہوگیا۔ بوقت نکاح قاضی نے قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے عارف  سے پوچھا کہ  کہ آپ نے پہلی بیوی سے اجازت طلب کرلی ہے ؟اگر نہیں توآپ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دیں ۔ محمد عارف نے کہا کہ اگر محمد جاوید اپنی بیٹی عطیہ کی رخصتی دید یتے ہیں تو میں اپنی پہلی بیوی عدیلہ کو طلاق دے دونگا۔ اہل مجلس کے اصرار پر ایک تحریر محمد عارف سے لکھوائی گئی ،جس میں  مطلقاً طلاق کا ذکر ہے ۔ یہ تحریر محض یاد داشت پر تیار کرائی گئی تھی ۔ اس کا مقصد طلاق دینا نہیں تھا،بلکہ معلق یا مشروط طلاق دینا تھاکہ اگر محمد عارف کو دوسری بیوی کی رخصتی مل جاتی ہے تو وہ پہلی بیوی کو از خود طلاق دیدیگا۔ لیکن اتفاق سے اس کو رخصتی نہیں ملی ،جس کی وجہ سے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی نوبت بھی نہیں آئی ۔لیکن خاندانی مسائل اور جھگڑے کی وجہ سے پہلی بیوی کے والد محمد اجمل نے اس نکاح ِ ثانی کی مجلس میں لکھی جانے والی تحریر کو جو مطلقاً طلاق کے  بارے میں تھی بنیاد بناکر نواب شاہ سے فتوی حاصل کرکے ، پنچائیت بلارکھی ہے  اور پنچائیت کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈال کر بھاری رقم کا مطالبہ کر رکھا ہے ، جس کو نبھانا ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ اور  اپنی صفائی کے طور پر کہہ رکھا ہے کہ آپ لوگ فتوی لا کر دکھا دیں کہ طلاق نہیں ہوئی تو معاملہ حل ہوسکتا ہے ۔

مفتی صاحب! ساری صورتحال آپ کے سامنے رکھی جارہی ہے کہ محمد عارف نے اب تک مطلقا طلاق نہیں دی ، بلکہ معلق طلاق دی تھی ،لیکن غلطی سے مجلس میں جو تحریر لکھی گئی وہ مطلق طلاق کے بارے میں  ہے ۔ اس لیے ان مجلس کے شرکاء سے حلفیہ بیان لے  کر اسٹام پیپرپر دوبارہ تحریر لکھوائی گئی ہے۔ براہ کرم اس صورتحال کا شرعی حکم واضح فرمادیں ۔  

تنقیح: فون پر سائل نے بتایا کہ شوہر کا ارادہ معلق  طلاق دینے کا تھا،لیکن مجلس میں جھگڑا ہونےکیوجہ سےشوہر نے مطلقاً تین طلاقوں کی تحریر لکھدی  تھی ۔ مذکورہ واقعہ 6 سال پہلے کا ہے ۔ طلاق دینے کیوجہ سے لڑکی کا والد 6 لاکھ روپے کامطالبہ  بھی کررہا ہے ۔ شوہر نے مہر ادا کردیا ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق نامہ کی منسلکہ تحریر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے باقاعدہ عنوان لگا کر اپنی بیوی کو  مطلقاً تین طلاقیں  دی  ہیں۔تحریر میں تعلیق یا شرط کا  کوئی ذکر نہیں ہے ۔ گرچہ سائل کا مقصود مشروط طلاق دینا تھا،لیکن چونکہ تحریر مطلقاً لکھی گئی ہے ،لہذا تحریر کا اعتبار کرتے ہوئے سائل کی بیوی پر مطلقاً تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ہے۔ اب سائل کا حلالہ شرعیہ کے بغیر اپنی بیوی کے ساتھ رہنا جائز نہیں  ہے ۔

البتہ طلاق دینے  کی وجہ سے لڑکی کے والد کے لیے کسی قسم کی  رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے ،اور نہ ہی سائل کے ذمہ اس رقم کی ادائیگی لازم ہے ۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 378)
الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (3/ 524)
يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة.فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين:الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال.وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 109)
وإن كتب كتابة مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل: أن يكتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق، ولو قال: ما أردت به الطلاق أصلا لا يصدق إلا أن يقول: نويت طلاقا من وثاق فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل؛ لأن الكتابة المرسومة جارية مجرى الخطاب ألا ترى أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يبلغ بالخطاب مرة وبالكتاب أخرى وبالرسول ثالثا؟ ، وكان التبليغ بالكتاب والرسول كالتبليغ بالخطاب فدل أن الكتابة المرسومة بمنزلة الخطاب فصار كأنه خاطبها بها بالطلاق عند الحضرة

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

14 جمادی الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب