021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث سے دستبرداری کاحکم
71177وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

افرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ

          میرا نام سمن خان ہے اورہم 16بھائی اور9بہنیں ہیں  جن میں چھ بھائی زندہ ہیں : حاجی نورعالم خان، شریف خان،حاجی سمن خان، حاجی عثمان خان،  حاجی حمید خان اور اقبال حسین ۔ اوربہنوں میں سے دو فوت ہوگئیں ہیں اور7 زندہ ہیں،  ہمارے والد صاحب کا نام حاجی غلام حیدرخان تھا،جو اب فوت ہوچکےہیں ۔

          میرےوالدصاحب نے1978میں اپنی حیات ہی  میں ایک وصیت نامہ لکھا تھا جس میں انہوں نے واضح کردیاتھا کہ میں نے اپنی حیات میں اپنی بیٹیوں کا حصہ بیباق کر دیا ہےاورمیرا زرخرید جتنی بھی جائیداد ہے اس میں صرف میرے بیٹوں کا حصہ ہے۔

میرے والد صاحب کی وفات کے بعد ساری جائیداد کی وراثت سب بھائیوں اور بہنوں کے نام درج کی گئی اورپھرمیری بہنوں سے جائیداد دستبرداری کے ذریعے بھائیوں کے نام ٹرانسفر کرائی گئی،یہ دستبرداری میری بہنوں سے بہوش وحواس اورخوشی سے کرائی گئی  تھی،اس طرح  وصیت کے مطابق سب بھائیوں کو اپنے اپنے حصے کی جائیداد ٹرانسفر  کردی  گئی۔

اب میرے بھائیوں میں سے کچھ فوت ہوگئے ہیں اورکچھ زندہ ہیں جن میں ایک یعنی اقبال حسین تقریبًا 26 سال پہلےاپنے حصےکی جا ئیداد فرو خت کر کے  ہمارا خاندان چھوڑ کر چلا گیاہے اور اس کے بعد سے خاندان کےکسی بھی غم  و خوشی میں شریک نہیں ہواحتیٰ کہ بھا ئیوں کے جنا زے تک میں شریک نہیں ہوا  اور نہ ہی ہمارےنفع و نقصان میں شریک ہوا ۔

اب مسئلہ یہ پیدا  ہوگیاہے کہ میرے ایک بھانجے یعنی بہن کے بیٹے ہیں خوشحا ل خان کے نام سے  وہ  یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میری والدہ صاحبہ سے اپنے بھائیوں کے نام جو دستبرداری رجسٹری کرائی گئی تھی وہ پورےجائیداد کی نہیں تھی اور مذکورہ دستبرداری  بھی دھوکہ دہی پر ہوئی تھی، لہذا میری والدہ کا حق دیا جائے حالانکہ یہ دستبرداری خوشی سے ہوئی تھی  اوراس کے دو گواہوں میں  ایک  بھائی  حاجی حمید خان  اور دوسرے  بھائی اقبال حسین اب بھی حیات ہیں اوریہ دستبرداری تیسرے بھائی  حاجی عثمان  خان  کے ذریعے ہوئی تھی وہ بھی اس موقع کےگواہ ہیں اور باقی 4 بھائی بھی گواہی دینے کے لئے تیار ہیں کہ یہ دستبرداری پوری جائیداد کی ہوئی تھی اورباہمی رضامندی سے ہوئی تھی ،اس میں کسی قسم کی دھوکہ دہی سے کام نہیں لیا گیاتھا،مگردوسرا فریق اس کو تسلیم نہیں کرتا۔

          ہمارا  بھائی اقبال حسین جو خاندان کو 26 سال پہلے چھوڑ کر چلا گیا تھا جو کہ دستبرداری کے گواہوں میں سے ایک تھا وہ اپنی بہنوں کی طرف سے دباؤ   اور خوشحال خان کی طرف سے خوف کا اظہار کرکے گواہی سے منکر گیاہے اور لالچ کا بھی خدشہ ہےجبکہ باقی بھائی تیارہیں ۔لیکن خوشحال خان  بضد ہے کہ  دوگواہان یعنی  حاجی حمید خان اور اقبال حسین کی بجا ئے حاجی سمن خان اور اقبال حسین ہماری   تسلی کرائیں جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہم نےتوجرگہ ممبران کو پہلے ہی سے پانچوں بھائیوں کے نام پیش کیےہیں جو کہ ہرقسم کی تسلی  دینے کے لیے تیار ہیں کہ یہ دستبردار ی پورےجائیدادسے ہوئی تھی  اور بغیر دھوکہ دہی کے ہوئی تھی،  نیز رجسٹرڈ شدہ  دستبرداری نامہ اوراس کی  اٹیسٹڈ کاپی  بھی د موجودہے۔یہ مسئلہ فی الحال ایک جرگہ میں زیرغورہے اور  مجاز عدالت میں  بھی یہ مقدمہ لےجانا  زیرِ تجویز ہے۔

مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں میر ے سوالات درجِ ذیل ہیں:

  1. کیارجسٹرشدہ دستبرداری نامہ ہونے کےباوجودبھی اگر مدعی دعویٰ کر ےتو ا س کا دعویٰ شرعی طور پر درست ہوگا؟حالانکہ جس وقت رجسڑار  کا غذات پر دستخط لینے وا لا ہو تا ہے وہ خاص طو ر پر زبا نی مشتری یا  ہبہ کرنے والا یا جائیداد منتقل کرنے والےکو بتا دیتا ہے کہ آپ سے اتنی جا ئیدا د  یا  آپ اتنی جا ئیداد منتقل کر رہے ہیں۔
  2. مدعیٰ کا کسی ایک مدعی علیہ  پر اصرار کرنا کہ تم تسلی کراؤ درست ہے یا غلط ؟
  3. اقبال حسین جو کہ گو اہ  بھی ہیں اور مدعی علیہ بھی  اس کے حوالے سےمدعی کا  اصرار کرنا کہ وہ بھی تسلی کرائےشرعی  طورپردرست ہےیا نہیں؟جبکہ ہم پہلے لکھ چکےہیں کہ اس کی حیثیت  کمزوراورمشکوک ہے  بوجہ  لاتعلقی، دباؤ،     لالچ ،  اورذاتی مفا د کےنہ ہو نےکے؟
  4.  مدعی علیہ (جس کےحوالے سے مدعی اصرار کر ر ہا  ہےکہ وہ تسلی کرائے) اگر  انکا ر کردے اور با قی سب مدعی علیہم ہر قسم کی تسلی کرانے پر تیا ر ہوں توکیا کسی ایک کی انکار کی وجہ سے دستبر داری  غلط ثابت ہو جا ئے گی ؟
  5. اگر کسی ایک مدعی علیہ نے انکا ر کیا تو وہ اپنے حصے کی جا ئیداد واپس کرے گا ؟
  6. شرعی طورپرتسلی کیلئےکونسے  ایسے جامع الفا ظ ہوسکتے ہیں جو مختصر بھی ہوں اور کافی بھی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے یہ سمجھیں کہ حیدر خان صاحب کا اپنے بیٹوں کے لیے وصیت  کرناچونکہ وارث کے لیے وصیت ہے اورشرعاً دیگرورثہ کی اجازت  اوررضاکے بغیرکسی وارث کیلئے وصیت جائز نہیں ہے،اس لیے یہ وصیت درست نہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُسے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالٰی نے ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے ، خبردار! وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔(ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب لا وصیۃ لوارث، ۳ / ۳۱۰، الحدیث: ۲۷۱۳) البتہ اگرسب ورثہ بالغ ہوں اوردل سے اس وصیت  پر راضی ہوجائیں تو پھریہ  وصیت درست ہوسکتی ہے ۔

قال رسوال اللہ صلى الله عليه وسلمإن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارثحديث صحيح رواه أحمد وأصحاب السنن و النسائي.و قال رسوال اللہ صلى الله عليه وسلملا وصية لوارث إلا أن يجيز الورثةرواه الدارقطني عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.وعن ابن عباس رضي الله عنهمالا تجوز وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة.

جہاں تک آپ کے بہنوں کا میراث سے دستبرداری کاتعلق ہےتواس کی تفصیل جاننے سے پہلے یہ سمجھیں کہ زندگی میں والدنے جوکچھ ان کو  دیاتھا وہ ہبہ تھا وہ بیٹیوں کی میراث کا بدل نہیں ہوسکتاکیونکہ وارث کی  ملکیت میراث میں مورث کے مرنے کے بعدآتی ہے اس سے پہلے نہیں لہذا جب زندگی میں بیٹیاں  مالک ہی نہیں تو وہ اس کا بدل لیکرمعاملہ کس بنیاد پرکر سکتی ہے ؟لہذ اجوکچھ والد نے ان کواپنی  زندگی میں  دیاتھا وہ سب کچھ ہبہ تھا لہذا مسئولہ صورت میں میراث میں بیٹیوں کا حق والد کی موت کے بعد بھی باقی رہا،ہبہ کے مذکورہ معاملہ سےساقط نہیں ہوا۔

البتہ اگربہنوں نے والد صاحب سےحساب بے باق کرتےوقت یہ وعدہ کیا ہو کہ (والدکی وفات کے بعد) وہ ترکہ میں سے اپنا حصہ نہیں لیں گی اوریہ وعدہ انہوں نے خوشی سے کیاتھا،اوراسی پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے بعد میں رجسٹری بھی کروائی تو پھراُن کو چاہئے کہ اپنا وعدہ پورا کریں اور ترکہ میں سےتھوڑا مال لے کر اپنے باقی حصے سے دیگرورثاء کے حق میں دستبردار ہوجائیں۔

کسی وارث کاترکہ میں سے  کچھ لیکراپنے حصے کا باقی ترکہ ورثہ کو معاف کردینے کو  شریعت  کی اصطلاح میں "تخارج" کہتے ہیں اوراس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں جن میں سے بعض جائز اوربعض شرائط پوری نہ ہونےکی وجہ سےناجائز ہوتی ہیں ،تاہم اس حوالے سے ان پر جبر نہیں ہوسکتا۔

مذکورہ مسئلہ میں اگربیٹیوں نے کچھ نہیں لیا اوراپنا حصہ میراث معاف کیا توتخارج کی یہ صورت درست نہیں کیونکہ یہ اعیان سے براءت ہےجوکہ شرعاً جائزنہیں ۔

اوراگرکچھ لیاتھاتو اگروہ سامان کی شکل میں تھاکہ توتھوڑا تھایازیادہ یہ تخارج صحیح ہوگیابشرطیکہ یہ بغیر کسی دباؤ اوردھوکہ دہی کے انجام دیاگیاہو۔

اوراگرنقد رقم انہوں نے لی تھی تو اس میں یہ دیکھیں گے کہ باقی ماندہ میراث میں سے اگرنقدرقم ہوتو اس میں جتنا حصہ اس نکلنے والے بہنوں کا تھا بطوربدل لی جانے والی رقم اگر اس سے زائدتھی تو صحیح اوراگر اسکے برابر یا کم تھی توپھرتخارج کا یہ عمل جائز نہیں کیونکہ اس  سےسود لازم آئے گا۔

تخارج کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت کا کسی پر قرض نہ ہو یا ہو مگرجو شخص  میراث سےنکل رہاہے اپنا حصہ اس مدیون کو معاف کردے یا فی الحال اتنی ہی مقدار باقی ورثہ سے قرض لے لے اورپھر اپنے حصے کا قرضہ وصول کرنا ان ورثہ کے حوالہ کردے تاکہ وہ وقت پرقرض وصول کرکے اپنے قرضے میں شمارکرلے۔

وفی الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 203)

فصل في التخارج (أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف نسبه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطى له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه.شرنبلالية وجلالية.ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، كذا لو أنكروا إرثه لانه حينئذ..... (وبطل الصلح إن أخرج أحد الورثة وفي التركة ديون بشرط أن تكون الديون لبقيتهم) لان تمليك الدين من غير من عليه الدين باطل.ثم ذكر لصحته حيلا فقال (وصح لو شرطوا إبراء الغرماء منه) أي من حصته لانه تمليك الدين ممن عليه فيسقط قدر نصيبه عن الغرماء (أو قضوا نصيب المصالح منه) أي الذين (تبرعا) منهم (وأحالهم بحصته أو أقرضوه قدر حصته منه مصالحوه عن غيرهم) بما يصلح بدلا (وأحالهم بالقرض على الغرماء) وقبلوا الحوالة، وهذه أحسن الحيل.

وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 15 / ص 225)

ولو كان بدل الصلح عرضا جاز مطلقا.

وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 15 / ص 225)

 ولوصالحوه عن النقدين وغيرهما بأحد النقدين لا يصح الصلح ما لم يعلم أن ما أعطوه أكثر من نصيبه من ذلك الجنس.

وفی غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر  (ج 6 / ص 254)

لو قال الوارث تركت حقي إلخ .....لو مات عن ابنين فقال أحدهما تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك.

وفی تکملۃ حاشیۃ رد المحتارج:۲ص:۲۰۸

وفی الأشباه والنظائر (ج1/ ص350)

ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه اه.

      جہاں تک خوشحال خان کےاس دعوے کا تعلق ہے کہ رجسٹری پوری کی نہیں ہوئی اوراس میں ان کی والدہ کے ساتھ دھوکہ دہی ہوئی ہے تویہ اس تقدیرپر ہے کہ تخارج صحیح ہوا ہو،اگرتخارج ہی صحیح نہیں ہوا  تو پھر اس کی ضرورت نہیں کیونکہ تخارج صحیح نہ ہونے کی صورت میں  میراث بدستور بہنوں کی ملک میں رہی ،بھائیوں کا ان کی میرث پر قبضہ جمانا  درست نہیں ہوگا اوراگرتخارج ہواتھا توپھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگرچہ کوئی بھی بھائی مدعی علیہ ہونے کی وجہ سے گواہ  تو نہیں بن سکتا مگرجب رجسٹری موجود ہے تو ظاہر یہ ہے کہ یہ صحیح ہوگی اورخوشخال خان کا دعوی کرنا کہ پورے جائیداد کی رجسٹری نہیں  ہوئی تھی یا اس  میں میری والدہ کے ساتھ  دھوکہ ہوا ہے خلافِ ظاہر ہے، لہذا وہ مدعی ہے اوردوسرا فریق مدعی علیہ اورشرعی اعتبارسے مدعی پر اپنے دعوی پر گواہ پیش کرناضروری ہوتاہےاگراس کے پاس گواہ نہ ہو تو پھرمدعی علیہ سے قاضی مدعی کے مطالبہ پر  قسم لیتاہے ،لہذا مسئولہ صورت خوشخال خان اپنی بات پر گواہ پیش کرے ورنہ پھر قسم کے ساتھ سمن خان وغیرہ کا قول معتبرہوگا۔

                                                                            وفی المبسوط - (ج 19 / ص 443)

وأصل معرفة المدعي من المدعى عليه أن ينظر إلى المنكر منهما فهو المدعى عليه والآخر المدعي وهذا أهم ما يحتاج إلى معرفته في هذا الكتاب وما ذكره في الكتاب كلام صحيح فإن النبي صلى الله عليه وسلم جعل المدعى عليه المنكر بقوله صلى الله عليه وسلم { واليمين على من أنكر }.

 اب آپ کے سوالوں کے مختصرجوابات درج ذیل ہیں:

١۔ اتنے قرائن کے ہوتے ہوئے تو بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا لیکن اگر واقعةًتخارج صحیح نہیں ہوایا اس میں دھوکہ دہی سے کام لیاگیا ہے اورمدعی اپنے آپ کو سچاسمجھ رہاہے تو پھر وہ دعوی کرسکتاہے مگر اس کو گواہوں کے ذریعےاپنا دعوی ثابت کرناہوگا۔

۲۔ اصولی طورپرقسم لینا چونکہ مدعی کا حق ہے، لہذا وہ کسی سے بھی لے سکتاہے،البتہ اگرباقی ورثہ کو اس پر اعتراض ہو توہرایک سے قسم لی جائے  اوراس کا اثر صرف اس کے حصہ تک محدودرکھاجائےیعنی اگروہ انکارکرے تو اس  کا اثرصرف اس کے اپنے  حصے تک محدود رہے۔

۳۔ اقبال حسین مدعی علیہ ہے لہذا وہ گواہ نہیں بن سکتے،اورچونکہ مدعی علیہ ہیں لہذا مدعی ان سےبھی قسم لینے پراصرارکرسکتاہے اورانکارکی صورت یہ صرف اس کے حصے کےلیے مضرہوگا،الایہ کہ باقی ورثہ نے اس کو اپنانمائندہ بنایاہواورپھروہ قسم کھانے سے انکار کردے توپھر اس کا ضررسب ورثہ کو ہوگا۔

۴۔ نہیں، بس صرف اس کے حصے کی حد تک اس کے انکارکا اثرہوگا،الایہ کہ باقی ورثہ نے بھی اس کواپنا نائب بنایاہو۔

۵۔ جی واپس کرے گا۔

٦۔ تسلی کے لیے شریعت نے قسم کے الفاظ  مشروع کئے ہیں ،لہذا مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو مدعی علیہ اللہ کی قسم کھائےگابشرطیکہ کہ مدعی اس کا مطالبہ کرے۔

حوالہ جات
.....

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

         7/6/1442ھ               

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب