021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مڈل مین کے کوکنگ آئل پر قبضہ سے متعلق فتوی پر اشکال کا جواب
75659خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال یہ ہے کہ امپورٹر ٹریڈر کو جو مال بیچتا ہے اس کی  چار صورتیں ہوتی ہیں:

صورت نمبر 1:

1۔مال امپورٹر کے پاس موجود ہوتا ہے اور اسے ٹریڈر کو ڈیلیور کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی  اس حالت میں امپورٹر ٹریڈر کو مال بیچ دیتا ہے۔اسے مارکیٹ میں Ready Delivery یا حاضر سودا کہا جاتا ہے۔

2۔اس  مال کی جنس،نوع اور وصف (مثلا: سرسوں کا تیل 9000 کلووغیرہ) امپورٹرمتعین کرتاہے، لیکن مال جہاں رکھا ہوتاہےوہ جگہ  متعین نہیں ہوتی  کیونکہ بعض اوقات ایک آدمی کےدوتین ٹرمینل ہوتے ہیں،اب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جو مال ٹرمینل میں رکھا ہوا ہے یہ ٹرمینل نمبر ایک میں ہے ،یا ٹرمینل نمبر 2 میں ہے یا تین میں ہے ۔  اس لئے بعض اوقات امپورٹر جب کسی ٹریڈر سے تیار مال کا سودا کرتا ہے اور وہ نہیں اٹھاتا اور اسی دوران اسے کوئی اور گاہک مل جائے جو کہ اس سے اسی وقت مال کا مطالبہ کر رہا ہو تو امپورٹر ٹریڈر سے پوچھے بغیروہ مال نئے گاہک کو بیچ دیتا ہے، اور پہلے ٹریڈر کو کہتا ہے کہ میرا مال آنے والا ہے اس میں سے میں تمہیں دیدوں گا۔

اس معاملہ میں نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہی مال دیا جائے گا یا دوسرا مال اور نہ ہی پوچھا جاتا ہے، صرف اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ دیا گیا مال وزن  اور کوالٹی میں سودے کے مطابق ہے یا نہیں۔

3۔ ٹریڈرز کے پاس چونکہ امپورٹر سے خریدے گئے مال کو رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی اس لئےوہ مال خریدنے کے بعد امپورٹرز سے اس مال کو لے کر اپنے قبضہ میں  نہیں لیتے، بلکہ وہ مال امپورٹر کے ٹرمینل (آئل گودام)میں رکھا رہتا ہے۔اور وہ اسی حالت میں مال آگے دوسرے ٹریڈرز/گھی مل/آئل ڈپوکوبیچ دیتے ہیں۔

4۔ امپورٹر سے مال خریدنے کے بعد ٹریڈرزمیں سے کوئی بھی ٹریڈر اس مال پر حقیقی طور پر قبضہ نہیں کرتا بلکہ وہ مال امپورٹر کے ٹرمینل میں رکھا رہتا ہے، اس صورت میں ٹریڈرز کو کہا جائے کہ مال پر ان کا قبضہ نہیں ہوا تو ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ اس مال کے نفع و نقصان (ریٹ کا اوپر نیچے ہونےکی صورت میں)کی مکمل ذمہ داری ٹریڈرز پر ہے تو اس سے قبضہ بھی ان کا شمار ہوگا۔

1۔مذکورہ بالا پوری تفصیل میں پوچھنا صرف یہ ہے کہ امپورٹر سے مال خریدنے کے بعد مال ٹرمینل میں ہی رکھارہتاہے،اس مال میں دیگر لوگوں کا مال بھی شامل ہوتا ہےٹرمینل میں موجود مال میں سے کسی کا  دس ٹن ہوتا ہے اور کسی کا 20 ٹن ہوتا ہےتوکیا  ایسی صورت میں  ہر ایک ٹرمینل میں  موجود شدہ مال کے اندر تمام لوگوں کے مال میں شرکت ملک کی صورت قائم کی جاسکتی ہے ؟

2۔چونکہ ٹریڈر  کے لئے مال کوخریدنے کے بعد ٹرمینل سے اس کو الگ کرکے  اپنے قبضہ میں لینے یا کسی اور کے پاس رکھوانے کی صورت میں خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے جو کہ عموما ملنے والے نفع سے بھی زیادہ ہوتا ہے، لہذاشرکت ملک کے علاوہ اور کوئی قابل عمل حل مارکیٹ میں تقریبا نا ممکن ہے ۔

3۔مذکورہ سوالات کے جواب میں نیچے شرکت ملک  کا ایک حل پیش کیا ہے:

الجواب حامداومصلیا

واضح رہے کہ مال خریدنے  کے لئے ضروری ہے کہ بیچنے والاآدمی اس مال کا مالک ہو ۔البتہ مال آگے بیچنے سے پہلے اس پر قبضہ کرناشرعاضروری ہے۔

قبضہ کی دوصورتیں ہیں : حقیقی قبضہ۔حکمی قبضہ

حقیقی قبضہ:  وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کے پاس مال گودادم میں آجائے۔

حکمی قبضہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کو اس مال میں مکمل تصرف کرنے کا حق حاصل ہوجائے ،اگرچہ مال پر حسی طور پر قبضہ نہ پایا جاتا ہو۔

مال کی خریداری کے بعد قبضہ کی مذکورہ دوصورتوں میں سے کسی ایک صورت کے پائے جانے کی صورت میں مال آگے بیچنا شرعا درست ہوگا۔

لہذاامپورٹر کی ملکیت میں آئل آنے کے بعد اس مال کو آگے بیچا جاسکتا ہے ۔جس آدمی کو یہ  آئل بیچا جائے گا ،اس آدمی اور امپورٹر کی مذکورہ مال میں شرکت ملک منعقد ہوجائے گی۔لہذا شرکت ملک قائم ہونے کی وجہ سے  ٹریڈر کے لئے مال آگے مال بیچنے کے لئے حسی قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ایک ٹریڈر کا آگے مال بیچنے کے بعد اس کی ملکیت اس مال سے خود بخود ختم ہوجائے گی اور خریدار کی ملکیت قائم ہوجائے گی۔البتہ شرکت ِملک  کے صحیح  ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ ضروری ہے:

1۔امپورٹر کی طرف سے جس وقت مال بیچا جارہا ہو اس وقت مال کے مجموعی مقدار کا معلوم ہونا شرعا ضروری ہے۔

2۔مال بیچےجانے کے بعد ضمان خریدار/ٹریڈر کی طرف منتقل ہوجائے ۔

3۔مال جس ٹرمینل میں ہو اس ٹرمینل کا معلوم ہونا ضروری ہے۔تاکہ مال ہلاک ہونے کی صورت میں نقصان کی ذمہ داری معلوم ہو۔

4۔خریدار کو بیچنے والے کی طرف سے اپنا حصہ آگے بیچنے کی اجازت ہو ۔

شرکت منعقد ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے کی صورت میں  ہر آدمی اپنے حصے کے بقدر نقصان کا ضامن ہوگا۔

5۔اس بات  کا اہتمام ہو کہ مال کی مجموعی مقدار کسی بھی وقت آسانی سے معلوم کی جاسکتی ہو۔

اگر مذکورہ بالا اصولوں پر عمل نہیں ہوتا توشرکت کی مذکورہ صورت شرعا درست نہیں ہوگی ۔

نوٹ: مذکورہ بالا سوالات کےجواب سے متعلق دارالافتاء جامعۃ الرشید سےسائل  پہلے فتوی لے چکاہے۔ البتہ اس فتوی میں شرکتِ ملک کی صورت میں موجود متبادل نہیں تھا ۔اب گزارش یہ ہے کہ شرکت ملک کی صورت میں جو حل پیش کیاگیا ہے،وہ حل شرعا قابلِ عمل ہے؟اس کو اختیار کیا جاسکتا ہے؟ ۔ جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء، مذکورہ مسئلے کے حوالے سے دارالافتاء جامعۃ الرشید سے جاری شدہ فتوی کی تفصیلات:

حوالہ نمبر: 14318/43، فتوی نمبر:74931/61، سائل: محمد فہد

مفتی : سید عابد علی شاہ، مجیب:محمد نعمان خالد

تاریخ: 12.12 .2021

مستفتی :زین العابدین۔رابطہ نمبر:03182453696 نارتھ ناظم آباد کراچی

وضاحت: سائل نے پر بتایا کہ ٹینکر میں موجود آئل کی مجموعی مقدار کو معلوم کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ روزانہ سینکڑوں گاڑیاں آئل لے کر نکل رہی ہوتی ہیں، امپورٹر اپنے حساب سے ہر خریدار کو آئل دے رہا ہوتا ہے، نیز گودام میں امپورٹ شدہ آئل مزید آئل ڈالا جا رہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آئل کی مجموعی مقدار میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ جواب میں شرکتِ ملک کا جو متبادل بتایا گیا ہے  شرعی اعتبار سے مذکورہ صورت میں اس پر عمل ممکن نہیں، کیونکہ سائل سے لی گئی معلومات کے مطابق آئل کی مجموعی مقدار کو معلوم کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ روزانہ سینکڑوں گاڑیاں آئل لے کر نکل رہی ہوتی ہیں اور امپورٹر اپنے حساب سے ہر خریدار کو آئل دے رہا ہوتا ہے اور گودام میں مزید آئل ڈالا جا رہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آئل کی مجموعی مقدار میں کمی بیشی ہو رہی ہوتی ہے۔اس لیے مذکورہ صورت میں شرکتِ ملک کے متبادل پر عمل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ہرخریدار کا مستقل قبضہ کرنا ضروری ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں سٹہ اور جوئے  کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ مال غیر متعین اور غیر ممیز ہونے کی صورت میں ایک ہی جگہ پر موجود ہوتا ہے اور اسی حالت میں کئی لوگ قبضہ کیے بغیر ایک دوسرے سے صرف زبانی یا تحریری طور پر معاہدہ کرکے نفع کما رہے ہوتے ہیں اور سائل کی طرف سے دی گئی معلومات  کے مطابق آئل کی قیمت ایک ہی  دن میں مسلسل اوپر نیچے ہو رہی ہوتی ہے، اسی صورتِ حال کو جوا اور سٹہ کہا جاتا ہے، جوکہ شرعاً حرام اور ناجائز ہے،نیز امپورٹر اورآئل ڈپو والے كے درمیان  اتنے تاجروں (Middle Men) کے آنے سے پروڈکٹ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے، جو عام صارفین کے لیے حرج اور مشکلات کا باعث ہے،  اس لیے اس طرح خریدوفروخت کی کسی اور مذہب کے مطابق بھی  اجازت نہیں دی جا سکتی۔

حوالہ جات
أخبار مكة للفاكهي (3/ 48، رقم الحديث: 1801) دار خضر، بيروت:
حدثنا محمد بن أبي عمر، قال: ثنا نصر بن باب، عن حجاج بن أرطأة، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، رضي الله عنه قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم بعث عتاب بن أسيد رضي الله عنه إلى أهل مكة وقال: " هل تدري إلى من أبعثك؟ أبعثك إلى أهل الله، فانهَهُم عن شرطين في بيع، وبيع وسلف، وربح ما لم يضمن، وبيع ما لم يقبض "
ملتقى الأبحر (ص: 146) دار الكتب العلمية - بيروت:
لو أمر رب سلمه بقبضه له ثم لنفسه فاكتاله لأجل المسلم إليه ثم لنفسه صح، ولو اكتال المسلم إليه في ظرف رب السلم بأمره وهو غائب لا يكون قبضا، ولو اكتال البائع كذلك كان قبضا بخلاف ما لو اكتاله في ظرف نفسه أو في ناحية بيته۔
 
فقه  البيوع :(ج:1ص:410) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
القبض في  مخازن السلع: وقد جرت العادة في الأسواق ببيع السلع في المخازن وتسلم إلى المشتري وثائق  تثبت ملكه في كمية من السلع المخزونة فيها فهل يعتبر القبض على الوثيقة قبضاللمبيع؟ والجواب: أن  وثائق السلع المتداولة في السوق على أقسام: فمنها ما يمثل ملك الحامل في سلعة معيّنة بأن تكون السلع معبّأة في  كرتونات مرقمة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ونظرا إلى كثرة التعامل فيما بين الناس بهذا الشكل فقد زعم بعض الناس تبريره على أساس أن إعطاء هذه الوثيقة تخلية بين المبيع وبيع المشتتري ، فينبغي أن يعتبر  قبضا حكميا، ولكن الواقع أن التخلية إنما تعتبر إذا كان المبيع متعيّنا مميزا عن غير المبيع أما التخلية بدون التعيين فإنه ليس تخلية  في الواقع وإنما هو حق للٓاخذ بعد التعيين۔
فقه  البيوع :(ج:1ص:413) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
أن  عند الشافعية قولافي بيع مالا تتفاوت آحاده كالحنطة أنه إن اشترى قفيزا واحدا من الصبرة فإن الشراء يعتبر لحصة مشاعة من الصبرة قال جلال الدين  المحلي في شرح المنهاج:" ويصح بيع صاع من صبرة تعلم صيعانها للمتعاقدين، وينزل على الإشاعة فإذا علما أنها عشرة آصع، فالمبيع عشرها، فلو تلف بعضها تلف بقدره من المبيع"                                  
وعلى هذا القول، لو علمت الكمية المجموعة في المخزن أنها عشرة أطنان مثلا: وبيعت منها كميّة مثل طن واحد، فإن الكمية المذكورة على الوثيقة تمثل حصة مشاعة في مجموع ما في المخزن ويعتبر البيع أنه بيع عشر ما في المخزن۔ فلو هلك طن منه، فإنه ينقص قدر العشر من الطنِّ المبيع۔ ولكنه مشروط بأن يعلم المتعاقدان مجموع الكمية وأن يتحمل المشتري هلاك حصته فيها، والعادة في أسواق  السلع أن المشتري لا يعرف الكمية المجموعة في المخزن، ولايعتبر  المشتري ضامنا عند  هلاك  بعضها بقدر حصته فيها۔ فلا تنطبق عليه هذه الجزئيّة۔
 
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

26/جمادی الاولیٰ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب