021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سود کی رقم قرض دینا
71356سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

اگر یہ شک ہو کہ قرض لینے والا قرض واپس نہیں کرے گا تو کیا ایسے شخص کو بطورِ قرض سود کی رقم یہ سوچ کر دے سکتے ہیں کہ اگر واپس کیا تو ٹھیک، ورنہ سود کی رقم ہی تھی؟ نیز یہی مسئلہ غیر مسلم کے بارے میں بھی بتا دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سود کی رقم کسی کو قرض دینا اسے خرچ کرنے کے مترادف ہے، لہٰذاایسا کرنا ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ کسی کے ساتھ سود کا عقد کرنا ہی ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے۔ اس سے ہر صورت میں بچنا چاہیے۔ سودی اکاؤنٹ کھولنا بھی سودی عقد کرنا ہی ہے۔ اگر ایسا کر لیا تو اس پر واجب ہے کہ فوراً اس عقد کو ختم کرے اور اگر سودی اکاؤنٹ ہے تو اسے بند کردے اور سودکی اضافی رقم بالکل وصول نہ کرے ، بلکہ اپنی اصل رقم ہی وصول کرے۔اور اگر خدانخواستہ اضافی سودی رقم وصول کر لی تو اسے مالک کو واپس لوٹانا ضروری ہے۔ اگر اسے واپس لوٹانا ممکن نہ ہو تو مالک کی طرف سے صدقہ کر دے۔ خود اس میں کوئی تصرف کرنا جائز نہیں۔البتہ اگر اصل مالک تک سودی رقم لوٹانا ممکن نہ ہو اور قرض مانگنے والا صاحبِ نصاب نہ ہو تواصل مالک کی طرف سے صدقہ کی نیت سے اسے یہ رقم دے سکتا ہے۔

اس مسئلہ میں قرض مانگنے والے کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ تعالٰی: قوله تعالى ﴿لا تأكلوا الربا﴾ (آل عمران: ١٣٠): أي الزائد في القرض والسلف على المدفوع، والزائد في بيع الأموال الربوية عند بيع بعضها بجنسه….. ويقال لنفس الزيادة: أعني بالمعنى المصدري، ومنه ﴿وأحل الله البيع وحرم الربا﴾ (البقرة: ٢٧٥): أي حرم أن يزاد في القرض والسلف على القدر المدفوع، وأن يزاد في بيع تلك الأموال بجنسها قدرا.  (فتح القدیر: 4/7)
وقال شمس الأئمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالٰی: والدليل على حرمة الربا: الكتاب، والسنة. أما الكتاب فقوله تعالى: ﴿وحرم الربا.﴾ [البقرة ٢٧٥]…… وقد ورد بنحوه أثر عن رسول الله صلی اللہ علی وسلم أنه قال: ((يملأ بطنه نارا بقدر ما أكل من الربا.)) (المبسوط للسرخسی: 109/12)
وقال أیضاً: وقد ذكر الله تعالى لآكل الربا خمسا من العقوبات: (أحدها): التخبط….. (والثاني): المحق….. (والثالث): الحرب….. (والرابع): الكفر، قال الله تعالى: ﴿وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين.﴾ )البقرة ٢٧٨)….. (والخامس): الخلود في النار. (المبسوط للسرخسی: 110/12)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: فيجب رد عين الربا، لو قائما.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: (فيجب رد عين الربا، لو قائما، لا رد ضمانه إلخ): يعني وإنما يجب رد ضمانه لو استهلكه، وفي التفريع خفاء؛ لأن المذكور قبله أن البيع الفاسد من جملة الربا، وإنما يظهر لو ذكر قبله أن الربا من جملة البيع الفاسد؛ لأن حكم البيع الفاسد أنه يملك بالقبض، ويجب رده لو قائما، ورد مثله، أو قيمته، لو مستهلكا. …. وحاصله أن فيه حقين حق العبد، وهو رد عينه لو قائما، ومثله لو هالكا، وحق الشرع، وهو رد عينه لنقض العقد المنهي شرعا، وبعد الاستهلاك لا يتأنى رد عينه، فتعين رد المثل، وهو محض حق العبد.(ردالمحتار:  169/5)
وقال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له، ويتصدق به بنية صاحبه. (ردالمحتار: 99/5)

محمد عبداللہ بن عبدالرشید

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

18/جمادی الثانیہ/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب