021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پب جی گیم سے پیسے کمانا
71443خرید و فروخت کے احکاماموال خبیثہ کے احکام

سوال

اگر کوئی شخص پب جی کے ذریعے پیسے کمائے یعنی فیس بک پیج یا یوٹیوب چینل بنائے اور اس سے کمائی کرے تو کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پب جی گیم سے کمائی کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یہ گیم کھیلتے ہوئے گیم کی لائیو سٹریمنگ کی جاتی ہے یا ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، پھر ان ویڈیوز کو فیس بک یا یوٹیوب پر پوسٹ کیا جاتا ہے، ان پر جو اشتہارات آتے ہیں ان سے کمائی کی جاتی ہے۔

یہ کمائی درج ذیل وجوہات کی بنا پر جائز نہیں:

  1. شریعت لایعنی اور بے مقصد امور سے منع کرتی ہے، صرف جائز اور صحت مند تفریح کی اجازت دیتی ہے، جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ، جبکہ پب جی ایک لایعنی گیم ہے۔ ایسے لایعنی گیم کی ویڈیوز بنا کر یوٹیوب اور فیس بک پر لگانے سے یہ گیم مزید پروموٹ ہوگا جو کہ گناہ کے کاموں میں تعاون کے مترادف ہوگا۔
  2. مختلف ریسرچ رپورٹس کی مطابق اس گیم کے کھیلنے والے اس کے عادی ہو جاتے ہیں، پھر ہر وقت اس میں منہمک رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، شرعی فرائض اور واجبات کی ادائیگی اور دیگر ضروری کاموں میں بھی غفلت ہوتی ہے۔ ان معاشرتی نقصانات کی وجہ سے اس گیم کو پروموٹ کرنا، اس کی ترغیب دینا ، دیگر لوگوں کو اس پلیٹ فارم کی طرف متوجہ کرنا، ان کو اس گیم کے مختلف راؤند اور ٹپس سکھانا وغیرہ سب ان مضر اثرات کے پھیلانے کا باعث ہے، لہذا اس کی کمائی بھی جائز نہیں۔
حوالہ جات
{وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]
  • سنن ابن ماجه 2/ 1315[
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه»
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 206)
حرم - عليه الصلاة والسلام - كل لعب واستثنى الملاعبة بهذه الأشياء المخصوصة فبقيت الملاعبة بما وراءها على أصل التحريم إذ الاستثناء تكلم بالباقي بعد الثنيا، وكذا المسابقة بالخف صارت مستثناة من الحديث وبما روي عن سعيد بن المسيب أنه قال: «إن العضباء ناقة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كانت تسبق كلما دفعت في سباق فدفعت يوما في إبل فسبقت فكانت على المسلمين كآبة إذ سبقت فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إن الناس إذا رفعوا شيئا أو أرادوا رفع شيء وضعه الله» وكذا السبق بالقدم لما روت سيدتنا عائشة - رضي الله عنها - أنها قالت «سابقت النبي - عليه الصلاة والسلام - فسبقته فلما حملت اللحم سابقته فسبقني فقلت: هذا بتلك» فصارت هذه الأنواع مستثناة من التحريم فبقي ما وراءها على أصل الحرمة؛ ولأن الاستثناء يحتمل أن يكون لمعنى لا يوجد في غيرها - وهو الرياضة والاستعداد لأسباب الجهاد في الجملة - فكانت لعبا صورة ورياضة وتعلم أسباب الجهاد فيكون جائزا إذا استجمع شرائط الجواز، ولئن كان لعبا لكن اللعب إذا تعلقت به عاقبة حميدة لا يكون حراما، ولهذا استثنى ملاعبة الأهل لتعلق عاقبة حميدة بها وهو انبعاث الشهوة الداعية إلى الوطء الذي هو سبب التوالد والتناسل والسكنى وغير ذلك من العواقب الحميدة، وهذا المعنى لا يوجد في غير هذه الأشياء فلم يكن في معنى المستثنى فبقي تحت المستثنى.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

20/06/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

مصعب خان صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب