021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا طریقہ کار
71514میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

باپ اگر اپنی زندگی میں اپنی دولت اور ملکیت اس طرح تقسیم کرے کہ بیٹیوں اور چھوٹے بیٹوں کو بہت کم دے اور آمدنی کے ذرائع بڑے بیٹوں میں بانٹ دے تو کیا ایسی تقسیم کو شرعی اور قانونی  طور پر قبول یا  چیلنج کیا جاسکتا ہے؟

تنقیح:

سوال واضح نہ ہونے کی وجہ سے سائل سے فون پر رابطہ کیا گیا تو اس نے سوال کا مقصد یہ بتایا کہ اگر کسی نے زندگی میں جائیداد کی غیرمنصفانہ تقسیم کی تو کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا ہبہ کے حکم میں ہےاور اس کے حوالے سے تفصیل درج ذیل ہے:

1۔عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو ،چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے۔

2۔بغیر کسی معقول وجہ ترجیح کے، محض نقصان پہنچانے کی غرض سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا ناجائز ہے۔

3۔ اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

4۔ایسی بے دین اولاد کوجسے دینے کی صورت میں غالب گمان ہو کہ وہ اس مال کو ناجائز کاموں میں صرف کرے گی وقتی ضرورت سے زیادہ نہیں دینا چاہیے،بلکہ ایسی صورت میں سارامال ان میں تقسیم کرنے کے بجائےاضافی مال دینی کاموں میں خرچ کردینا مستحب ہے۔

واضح رہے کہ چونکہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ پورانہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

لہذا والد کا ساری جائیداد اپنے بڑے بیٹوں میں بانٹنا اور چھوٹے بیٹوں اور بیٹیوں کو محروم کرنا جائز نہیں،تاہم اگر انہوں ایسی تقسیم کرکے ہر ایک کو دیا جانے والا حصہ اس کےقبضے میں بھی دے دیا تو وہ گناہ کے مرتکب تو ہوئے،لیکن ہبہ مکمل ہوگیا اور اب ان ورثہ سے ان کو دیئے جانے والے حصے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".
"الدر المختار للحصفكي ": (ج 5 / ص 265) :
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب