021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا بہن اپنا وراثت کا حصہ معاف کرسکتی ہے؟
71515میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا کوئی بہن اپنے بھائیوں کو اپنا وراثت کا حق معاف کرسکتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تقسیم سے پہلے مشترک جائیداد میں سے بہنوں کا اپنا حصہ معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا، بلکہ بہنوں کا حصہ ان کے حوالے کرنا ضروری ہے،اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے بھائی کو واپس دینا چاہیں تو بھائی لے سکتا ہے،لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب اس علاقے میں بہنوں  کا حصہ دبانے کا رواج نہ ہو ،جہاں یہ رواج ہو کہ بہنوں کو میراث میں سے حصہ نہ دیاجاتا ہو،یا معاشرے کے دباؤکی وجہ سے بہنیں خود حصہ لینے میں شرم وعار محسوس کرتی ہوں،جیسا کہ آج کل اکثر علاقوں میں ہوتا ہے تو ایسی صورت میں چونکہ عام طور پر بہنوں کی دلی رضامندی نہیں ہوتی،بلکہ شرما شرمی میں اپنا حصہ چھوڑدیتی ہیں ،اس لئے ایسی صورت میں بھائیوں کے لیے بہنوں سے ان کا حصہ واپس لینا جائز نہ ہوگا ۔

اگر دلی رضامندی کا یقین ہوجائے تب بھی اس سے بچنا چاہیئے ،کیونکہ اس سے ایک غیر شرعی اور ظالمانہ رسم کی تائید ہوگی اور بہنوں کے حقوق غصب کرنے کا رواج بڑھے گا۔ )احسن الفتاوی:9/279)

حوالہ جات
"غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائرللحموي" (3/ 354):
" لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي .
قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.
قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه".
"الفتاوى البزازية" (6/ 151):
"ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منه أو من حصتي لا يصح وهو على حقه لأنه الإرث جبري لا يصح تركه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب