021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عمررسیدہ ہونے کے بعد بیٹے کو سپرد کیے گئے کاروبار اور اس کے منافع کا حکم
71517میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

1992 میں باپ ایک بیٹے کو دوسرے شہر میں جگہ خرید کر اپنے  کاروبار کی شاخ کھول کر دیتا ہے اور کئی سالوں بعد اس کاروبار کی آمدنی اور معاملات یہ کہہ کر اپنے بیٹے کے سپرد کردیتا ہے کہ اب میں ضعیف ہوگیا ہوں،اس لیے اس دکان کے معاملات اور آمدنی کو تم سنبھالو۔

بیٹا کئی سالوں تک اس کاروبار سے اپنے اور اپنے بچوں کے معاملات اور اخراجات پورے کرتا ہے اور پھر باپ کی وفات کے بعد اس دکان و کاروبار پر اپنا حق ملکیت ظاہر کرتا ہے کہ والد صاحب نے مجھے الگ کردیا تھا،کیا اس طریقے سے کوئی وراثت میں الگ ہوجائے گا؟

اور ایسے کاروبار سے بنائی جانے والی دولت اور اثاثوں میں دوسرے بہن بھائی شریک ہوں گے یا نہیں؟

تنقیح:

سائل نے فون پر وضاحت کی کہ اس شاخ کی سپردگی کے وقت ایسی کوئی تصریح نہیں کی گئی تھی کہ یہ سب کچھ اب تمہارا ہوگیا،بلکہ کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے مرحوم نے پہلے اس شاخ کے معاملات خود دیکھنا چھوڑے اور پھر دوسری جگہ جو شاخ تھی اس کو بھی اس میں معاون بیٹے کے آسرے پر چھوڑدیا اور مرتے دم تک انہوں نے اپنی جائیداد تقسیم نہیں کی،حالانکہ کئی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ آپ اپنی زندگی میں اسے تقسیم کردیں،ورنہ بعد میں آپ کی اولاد لڑے گی،لیکن انہوں نے نہیں مانا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ کاروبار کی یہ شاخ مرحوم نے اپنا سرمایہ لگاکر کھولی تھی اور پھر اس کے بعد کئی سالوں تک اس کے معاملات بھی وہ خود دیکھتے رہے،بیٹا ان کے ساتھ بطورِ معاون کام کرتا رہا اوراس کی ضرورت کے مطابق وہ اسےخرچہ دیتے رہے،پھر کمزوری اور نقاہت بڑھنے کے بعد جب خود ان کے لیے معاملات دیکھنا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے اس کی نگرانی بیٹے کے سپرد کردی،جیسا کہ کچھ عرصہ بعد انہوں نے دوسری دکان کے معاملات کی نگرانی بھی چھوڑدی تھی،لیکن ان کا مقصد کاروبار کی تقسیم نہیں تھا،اس لیے یہ کاروبار اور اس سے بنائی جانے والی دولت اکیلے اس بھائی کی نہیں ہے جس کو اس کا نگران بنایا گیا تھا،بلکہ دیگر ورثہ کا بھی اس میں حق ہے،کیونکہ مرحوم نے اس بیٹے کو نگران بنایا تھا،کاروبار تقسیم کرکے مالک نہیں بنایا تھا۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (5/ 688):
"وفي خزانة الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري.
قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك كمن دفع لفقير شيئا وقبضه، ولم يتلفظ واحد منهما بشيء، وكذا يقع في الهداية ونحوها فاحفظه، ومثله ما يدفعه لزوجته أو غيرها".
"الدر المختار " (5/ 709):
"أعطت زوجها مالا بسؤاله ليتوسع فظفر به بعض غرمائه إن كانت وهبته أو أقرضته ليس لها أن تسترد من الغريم، وإن أعطته ليتصرف فيه على ملكها فلها ذلك لا له.
دفع لابنه مالا ليتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإلا فميراث وتمامه في جواهر الفتاوى".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب