021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گودام میں باجماعت نماز پڑھنے کی عادت بنا لینے کا حکم
71453نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

ایک گودام میں پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے حالانکہ گودام میں نہ مسجد ہے اور نہ مصلہ ہے ۔ ایک کمرے میں 15 مزدور ایک قاری صاحب کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں ۔ پانچ منٹ کے فاصلے پر مسجد بھی موجود ہےجس کا آنے اور جانے کا فاصلہ 860 قدم ہے۔ کیا اس طرح باجماعت نماز ادا کرنا درست ہے ؟نماز ہو جائے گی ؟

نیز مزدور لوگ مسجد نہیں جاتے ہیں ، اس وجہ سے قاری صاحب جماعت کرواتے ہیں ۔ علماء کرام کی اس مسئلے کے بارے میں کیا رائے ہے ؟آئندہ اس فیکٹری میں باقاعدہ مسجد بنانے کا بھی ارادہ ہے ۔ اس حوالے سے بھی رہنمائی فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھنا ضروری ہے ۔ بغیر کسی شرعی عذر کے اکیلے نماز پڑھنا یا مسجد کے علاوہ کہیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں ، البتہ اگر اس طرح اکیلے یا مسجد کے علاوہ کہیں اور باجماعت نماز ادا کی جائے تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن مسجد میں باجماعت نماز ادا نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا ۔

لہذا صورت مسئولہ میں گودام میں مستقل پنچ وقتہ نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت بنا لینا درست نہیں ، جبکہ مسجد کا فاصلہ بھی زیادہ نہیں ہے ۔ اگر مزدور مسجد نہیں جاتے ہیں تو ترغیب دے کر ان کو مسجد جانے پر رضامند کیا جا سکتا ہے،البتہ کبھی وقت کی قلت ، مسجد میں جماعت کے نکل جانے یا کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے گودام میں کوئی نماز باجماعت ادا کر لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ،نماز ادا ہو جائے گی ۔

مستقبل میں اگر فیکٹری کے احاطے میں مسجد تعمیرکی جاتی ہے اوروہاں باجماعت پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کی ترتیب بن جاتی ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 273)
وفي فتاوى قاضي خان إجابة المؤذن فضيلة وإن تركها لا يأثم، وأما قوله - عليه الصلاة والسلام - «من لم يجب الأذان فلا صلاة له» فمعناه الإجابة بالقدم لا باللسان فقط، وفي المحيط يجب على السامع للأذان الإجابة
المعجم الأوسط (3/ 149)
2763 - حدثنا إبراهيم قال: نا حوثرة بن أشرس المنقري قال: نا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، [ص:150] عن أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لو أن رجلا دعا الناس إلى عرق أو مرماتين لأجابوه، وهم يدعون إلى هذه الصلاة في جماعة فلا يأتونها، لقد هممت أن آمر رجلا يصلي بالناس في جماعة، ثم أنصرف إلى قوم سمعوا النداء، فلم يجيبوا فأضرمها عليهم نارا، وإنه لا يتخلف عنها إلا منافق»لم يرو هذا الحديث عن ثابت إلا حماد بن سلمة
اعلاء السنن (ج:4،ص:186)
قلت:دلالتہ علی الجزء الاول ظاھرۃ حیث بولغ فی تھدید من تخلف عنہا، وحکم علیہ بالانفاق ، ومثل ھذا التھدید لا یکون الا فی ترك الواجب، ولا یخفی ان وجوب الجماعۃ لو کان مجردا عن حضور المسجد لما ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال انھم صلوھا بالجماعۃ فی بیوتھم ، فثبت ان اتیان المسجد ایضا واجب کوجوب الجماعۃ ، فمن صلاھا بجماعۃ فی بیتہ اتی بواجب ، وترک واجبا اخر۔

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23 جمادی الثانی 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب