021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرمت کے لیے دی گئی چیز کے مالک کے نہ آنے کی صورت میں مزدوری کیسے وصول کی جاسکتی ہے ؟
71466گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

سوال:میری استری کی دکان ہے ۔ میں خراب استریاں مرمت کرتا ہوں ۔ میرے پاس مرمت کے لیےمختلف لوگوں کی بہت ساری استریاں آئی تھیں ، جن کو میں نے مرمت کر لیا تھا لیکن ان کے مالکان استریاں وصول کرنے نہیں آئے ۔ تقریبا دو ڈھائی سال ہونے کو ہیں یا اس سے بھی زیادہ لیکن مالکان نہیں آئے ۔ ان میں سے کچھ پر لکھے نام بھی مٹ گئے ہیں ۔ کچھ پر نام تو لکھے ہیں لیکن بندہ انہیں جانتا نہیں ہے ۔ ان کافون نمبر بھی نہیں ہے ۔

اب ان استریوں میں سے کچھ کی حالت ایسی خراب ہو گئی ہے جنہیں اگر فروخت کیا جائے تو ڈھائی سو تک بک سکتی ہیں اور کچھ پانچ یا چھ سو تک فروخت ہو سکتی ہیں جبکہ ان پر مزدوری کا خرچہ 150 سے لے کر 500 تک کا ہے جو مجھے وصول نہیں ہوئے ۔ ان استریوں کی حفاظت میں بھی دشواری ہے ۔

بندہ ان استریوں کا کیا کرے ؟اور اپنی مزدوری و خرچہ کیسے وصول کرے ؟براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  جو استریاں آپ کومرمت کے لیے دی گئی ہیں ، وہ کس کی ہیں اور ان کی کیا مزدوری طے ہوئی تھی ، اس سب کا ریکارڈ محفوظ رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر مالک لینے آ جائےتو اس کی چیز لوٹائی جا سکے ۔

جن استریوں کو آپ کے پاس رکھے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اوران کے مالکان سے رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے،جبکہ غالب گمان یہ ہے کہ اب وہ اپنی استری لینے نہیں آئیں گے تو آپ ان کی استریوں کو بیچ کر صرف اپنی مزدوری کی رقم لے سکتے ہیں ، مزدوری سے زائدرقم کو استری کے مالک کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے ، البتہ اگر استری کا مالک لوٹ آتا ہے اور اپنی چیز کا مطالبہ کرتا ہے تو جو رقم آپ نے اس کی طرف سے صدقہ کی تھی ، وہ اس کو لوٹانا لازم ہے،نیز ایسی استریاں جن کو رکھے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے اور ان کے مالکان کے لوٹ آنے کی امید ہے تو ان کو بیچ کر اپنی مزدوری کی رقم وصول کرنا جائز نہیں ۔

حوالہ جات
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 235)
(وإنما يستحق) أي لا يستحق الأجير المشترك (الأجر) إلا (بعمله كالصباغ ونحوه) ؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بين العوضين فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر وهو العمل لا يسلم للأجير العوض وهو الأجر -
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 417)
وقيل الصحيح أن شيئا من هذه المقادير ليس بلازم ويفوض إلى رأي الملتقط يعرفها إلى أن يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبهاكالنواة وقشور الرمان يكون إلقاؤه إباحة حتى جاز الانتفاع به من غير تعريف ولكنه مبقى على ملك مالكه لأن التمليك من المجهول لا يصح.
قال: " فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها " إيصالا للحق إلى المستحق وهو واجب بقدر الإمكان وذلك بإيصال عينها عند الظفر بصاحبها وإيصال العوض وهو الثواب على اعتبار إجازة التصدق بها وإن شاء أمسكها رجاء الظفر بصاحبها.
قال: " فإن جاء صاحبها " يعني بعد ما تصدق بها " فهو بالخيار إن شاء أمضى الصدقة " وله ثواها لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم يحصل بإذنه فتيوقف على إجازته والملك يثبت للفقير قبل الإجازة فلا يتوقف على قيام المحل بخلاف بيع الفضولي لثبوته بعد الإجازة فيه " وإن شاء ضمن الملتقط " لأنه سلم ماله إلى غيره بغير إذنه إلا أنه بإباحة من جهة الشرع وهذا لا ينافي الضمان حقا للعبد كما في تناول مال الغير حالة المخمصة وإن شاء ضمن المسكين إذا هلك في يده لأنه قبض ماله بغير إذنه وإن كان قائما أخذه لأنه وجد عين ماله.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 202)
(ولنا) ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «لا تحل اللقط فمن التقط شيئا فليعرفه سنة فإن جاءه صاحبها فليردها عليه وإن لم يأت فليتصدق» والاستدلال به من وجهين أحدهما أنه نفى الحل مطلقا، وحالة الفقر غير مرادة بالإجماع فتعين حالة الغنى والثاني أنه أمر بالتصدق ومصرف الصدقة الفقير دون الغني وأن الانتفاع بمال المسلم بغير إذنه لا يجوز إلا لضرورة ولا ضرورة إذا كان غنيا.
وأما الحديث: فلا حجة له فيه لأن قوله - عليه الصلاة والسلام - فشأنك بها إرشاد إلى الاشتغال بالحفظ؛ لأن ذلك كان شأنه المعهود باللقط إلى هذه الغاية أو يحمله على هذا توفيقا بين الحديثين صيانة لهما عن التناقض وإذا تصدق بها على الفقراء فإذا جاء صاحبها كان له الخيار إن شاء أمضى الصدقة وله ثوابها، وإن شاء ضمن الملتقط أو الفقير إن وجده؛ لأن التصدق كان موقوفا على إجازته وأيهما ضمن لم يرجع على صاحبه

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23 جماوی الثانی 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب