021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بکریوں کو نصف نفع پر دینا
71613شرکت کے مسائلمشترک چیزوں سے انتفاع کے مسائل

سوال

ایک شخص نے دوسرے کو بکریاں دیں کہ اس کے منافع یعنی بچوں میں آدھا آدھا حصہ ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس عقد کو شریعت میں کیا کہتے ہیں؟ اور اگر وہ بکریاں مر گئیں اور بکری کا ایک ہی بچہ رہ گیا تو یہ کس کا ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"یہ صورت اجارہ فاسدہ کی ہے اور تعامل کی وجہ سے اس کے جواز کی گنجائش اس وجہ سے نہیں ہے کہ اوّلاً تو یہ تعامل بلانکیر نہیں۔ دوسرے اس کا نعم البدل موجود ہے کہ اس جانور کی قیمت لگا کر آدھی قیمت پر دوسرے آدمی کو اپنے ساتھ شریک کرے اور کوئی ایک اپنی خوشی سے اس کو پالےاور دونوں اس جانور اور اس کے دودھ اور بچوں میں شریک ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔" (تبویب: 336/84)

لہٰذا  اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس صورت میں بکریاں، ان کے بچے اور ان کا نفع و نقصان اصل مالک کا ہو گا اور وہ پالنے والے کو پالنے کی اجرتِ مثل دے گا۔

اس عقد کو جائز کرنے کی ایک اور صورت یہ بھی ہے کہ اصل مالک اُسے نفع میں شریک کرنے کی بجائے اجرت پر اسے بکریاں دے دے اور ماہانہ یا سالانہ اجرت طے کر لے۔

بعض متاخرینِ حنفیہ نے حنابلہ کے مذہب پر فتوٰی دیتے ہوئے ابتلائے عام کے وقت اس عقد کو جائز قرار دیا ہے، لیکن جس جگہ دوسرے متبادل پر عمل ممکن ہو، وہاں اس سے بچنا بہتر ہے۔ چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقد ناجائز ہے۔ کما نقل في السوال عن عالمگیریۃ،  لیکن بنابر نقل بعض اصحاب امام احمدرحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے، پس تحرزاحوط ہے، اور جہاں ابتلاء شدید ہو توسع کیا جاسکتا ہے۔ (امداد الفتاوٰی: 343/3)

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قال في المبسوط: لا بد من إعلام ما يرد عليه عقد الإجارة على وجه ينقطع به المنازعة ببيان المدة والمسافة والعمل، ولا بد من إعلام البدل اهـ، وإلا كان العقد عبثا كما في البدائع. (ردالمحتار: 4/6)
قال جماعۃ من العلماء رحمہم اللہ تعالٰی: دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها، وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا، فالإجارة فاسدة. وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه، لا ما سرحها في المرعى. ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها؛ لأن اللبن مثلي. وإن اتخذ من اللبن مصلا، فهو للمتخذ، ويضمن مثل اللبن؛ لانقطاع حق المالك بالصنعة.
والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن، ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل، فيكون بينهما. (الفتاوٰی الھندیۃ: 445,446/4)
وقال ابن الھمام رحمہ اللہ تعالٰی: إذا دفع بقرة إلى آخر يعلفها؛ ليكون الحادث بينها بالنصف، فالحادث كله لصاحب البقرة، وله على صاحب البقرة ثمن العلف وأجر مثله، وعلى هذا إذا دفع الدجاج؛ ليكون البيض بالنصف. (فتح القدیر: 421/6)

محمدعبداللہ بن عبدالرشید

دارالافتاء، جامعۃ الرشید ،کراچی

25/ جمادی الثانیہ/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب