021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جسم کے مختلف حصوں کے بالوں کا حکم
71602جائز و ناجائزامور کا بیانناخن ،مونچھیں اور ،سر کے بال کاٹنے وغیرہ کا بیان

سوال

جسم کے بالوںمیں کہاں کے بال کاٹناواجب ہے اورکہاں کے بال جائز ہے اورکہاں کے جائز نہیں ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرد وعورت کے لیے اپنی شرم گاہ او رجائے پاخانے اوران کے ارد گرد کے بال کاٹنا واجب ہے اسی طرح موئے زیر بغل کاٹنابھی ضروری ہے، مونچھوں کو اس قدر تراشنا کہ لبوں پر نہ آئیں یہ بھی ضروری ہے،تاہم مونچھیں کاٹنے میں اس قدر مبالغہ کرنا کہ بالکل کٹی ہوئی محسوس ہوں تو یہ صرف بہتر ہے اور بالکل استرے سے صاف کرنابھی جائزہے،مذکورہ غیرضروری بال  ہفتے میں ایک بار کاٹنا مستحب ہے،اگر ہر ہفتے نہ کاٹ سکے تو پندرہ دن کے بعد کاٹے ، زیادہ سے زیادہ چالیس دن  تک تاخیر کی جاسکتی ہے اس کے بعد تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہےاوراس سے گناہ  ہو گا۔مرد کے لیے ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ، اس سے کم کروانا یا منڈوانا ناجائز وحرام ہے ، سر کے بالوں کو منڈوانا اور سنت کے مطابق چھوڑنا دونوں جائز ہیں مگر بعض بالوں کو کٹوانا او ربعض کو چھوڑنا منع ہے، اس کے علاوہ پیٹھ اور سینے کے بال کا ٹنا بھی جائز ہے مگر خلاف اولیٰ ہے اور سفید بالوں کا نوچنا مکروہ ہے۔عورت کے لیے سر کے بال منڈوانا ناجائز ہے ، اگر عورت کی داڑھی یا مونچھیں نکل آئیں تو ان کا کاٹنا مستحب ہے اور ابرووں کو باریک کرنا عورت کے لیے جائز نہیں، بلکہ ایسی عورت پر الله اور اس رسول صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔

حوالہ جات
في صحيح البخاري، عن عبد الله بن عمررضی اللہ عنہ :
 (الفطرةُ خمسٌ، أو خمسٌ من الفطرةِ: الختانُ، والاستحدادُ، ونتفُ الإبطِ، وتقليمُ الأظفارِ، وقصُّ الشاربِ    )بخاری، كتاب الاستئذان، باب الختان بعد الكبر ونتف الإبط، 5: 2320، رقم:5939، دار ابن کثير اليمامة بيروت و مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1: 222، رقم: 257، دار احياء التراث العربي بيروت.
في صحيح المسلم عن انس رضی اللہ عنہ :
وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.(مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1: 222، رقم: 258)
وفی العاﻟﻤﮕﯿﺮية:
وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ في كل أُسْبُوعٍ مَرَّةً فَإِنْ لم يَفْعَلْ فَفِي كل خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا وَلَا يُعْذَرُ في تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ فَالْأُسْبُوعُ هو الْأَفْضَلُ وَالْخَمْسَةَ عَشَرَ الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ وَلَا عُذْرَ فِيمَا وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ.... وَيَبْتَدِئُ في حَلْقِ الْعَانَةِ من تَحْتِ السُّرَّةِ وَلَوْ عَالَجَ بِالنُّورَةِ في الْعَانَةِ يَجُوزُ (الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاويى الهندية، 5: 358، بيروت: دارالفکر)
وفی رد المحتارمع الدر:
والأفضل یوم الجمعة وجاز في کل خمسة عشر وکرہ ترکہ وراء الأربعین (الشامي: ج۹ ص۸۵۳، ط زکریا)
وفی المشکوة المصابیح:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : خالفواالمشرکین ،واخفوا الشوارب وافواللحیٰ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، ص:380)
وفی الفتاوى الهندية ،5/ 358
"وفي حلق شعر الصدر والظهر ترك الأدب، كذا في القنية".
وفی صحیح البخاري:۵۹۳۱
لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنِّمَصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمَغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ عَزَّوَجَلَّوفی صحیح ابن حبان:۵۴۸۰
(لَعَنَ النَّامِصَةَ وَالْمُتْنَمِصَةَ )
حاشية رد المحتار على الدر المختار (6/ 373):
(والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب.

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

       26/6/1442ھ               

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب