71653 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
اگر کوئی شخص دوسرے کے لیے ایفی لیٹ مارکیٹنگ کی ویب سائٹ یا بلاگ بنائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ جس چیز کا غلط اور صحیح دونوں طرح کا استعمال ممکن ہو اس کا بنانا اور بیچنا شرعاً جائز ہے، الا یہ کہ جس شخص کو بیچی جا رہی ہو اس کے بارے میں یقینی علم یا غالب گمان ہو کہ وہ اس کا استعمال غلط کرے گا۔ اس اصول کی روشنی میں چونکہ ایفی لیٹ مارکیٹنگ کی ویب سائٹ کا استعمال جائزو ناجائز، دونوں طرح ممکن لہذا اس کا بنا کر دینا جائز ہے الا یہ کہ ڈیویلپر (ویب سائٹ بنانے والے) کو یقینی علم یا غالب گمان ہو کہ استعمال کرنے والا اسے غلط ہی استعمال کرے گا تو اس صورت میں یہ کام جائز نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
ويكره بيع السلاح من أهل الفتنة في عساكرهم، ولا بأس ببيعه بالكوفة ممن لم يدر أنه من أهل الفتنة، وهذا في نفس السلاح، فأما ما لا يقاتل به إلا بصنعة كالحديد فلا بأس به كذا في الكافي.
(الفتاوى الهندية، 2/285، ط: دار الفكر)
وإذا استأجر الذمي مسلما ليحمل له ميتة أودما يجوز عندهم جميعا ولو استأجر ذمي من ذمي بيتا يصلي فيه لا يجوز ولو استأجر مسلما ليرعى له الخنازير يجب أن يكون على الخلاف كما في الخمر ولو استأجره ليبيع له ميتة لم يجز هكذا في الذخيرة.
(الفتاوى الهندية، 4/450، ط: دار الفكر)
محمد اویس پراچہ
دار الافتاء، جامعۃ الرشید
27/ جمادی الثانیۃ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس پراچہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |