021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے وقف زمین پر بنات کے لیے مدرسہ کی تعمیر
71644وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

مسجد سے متصل ایک پلاٹ کسی نے مسجد کے لیے وقف کیا، لیکن پلاٹ ایسا تھا کہ اس پر مسجد نہیں بن سکتی تھی، کیونکہ اس سے پہلے مسجد بن چکی تھی اور وہ پلاٹ محراب سے آگے تھا (البتہ وقف کرنے والے کی تمنا مسجد بنانا تھا) پھر بعد میں انتظامیہ نے مشورہ کیا کہ اس جگہ پر مکان تعمیر کرکے کرایہ پر دیا جائےتاکہ مسجد کی آمدن ہو سکے، لیکن حالات کے پیش نظر بنات کے مدرسہ کی ضرورت تھی تو بنات کا مدرسہ تعمیر کر دیا، کیا یہ تعمیر درست تھی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ پلاٹ چونکہ مسجد کے لیے وقف کیا گیا تھا، اس لیے یہ مسجد کی ملکیت ہی ہے۔ اس میں  تعلیم قرآن وعلوم دین کے لیے مدرسہ بنات کی تعمیر جائز ہے۔ یہ مدرسہ الگ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ مسجد کی ملکیت ہے۔ اگر آئندہ مسجد کی توسیع کی ضرورت پڑی یا مسجد کی ضروریات کے لیے کسی اور تعمیر کی حاجت ہوئی تو مدرسہ کی زمین استعمال کی جا سکتی ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (12/ 34)
قال (وإن جعل أرضا له مسجدا لعامة المسلمين وبناها وأذن للناس بالصلاة فيها وأبانها من ملكه فأذن فيه المؤذن وصلى الناس جماعة صلاة واحدة، أو أكثر لم يكن له أن يرجع فيه، وإن مات لم يكن ميراثا)

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

30/06/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب