71795 | جائز و ناجائزامور کا بیان | رشوت کا بیان |
سوال
نوکری کے حصول کے لیے اکثر کمیشن دینا پڑتا ہے، اِس کے بغیر آج کل آسانی سے نوکری نہیں ملتی۔ کیا اِس کمیشن کا لینا دینا جائز ہے؟ اگر مجبوری کے وقت یہ کمیشن دیا جائے تو کوئی گناہ تو نہیں ہوگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عام طور پر اِس طرح کا کمیشن وہ افسران لیتے ہیں جن کے ذمہ متعلقہ نوکریوں کے لیے لوگوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور سرکار کی جانب سے اُن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کا اُن کی مطلوبہ اہلیت کی بنیاد پر انتخاب کریں۔ لہذا اُن افسران کا ملازمت فراہم کرنے پر کمیشن لینا در حقیقت رشوت وصول کرنا ہے اور رشوت کا لینا اور دینا، دونوں ناجائز ہیں۔ البتہ اگر کوئی نوکری کے حصول کے تمام مراحل میں کامیاب ہوجائے اور وہ اُس نوکری کا حق دار ٹھہرے پھر صرف اُس کے نام حکم نامہ جاری کرنے کے لیے اُس سے رشوت مانگی جارہی ہو تو ایسی صورت میں بأمرِ مجبوری رشوت دینا جائز ہے، لیکن لینے والے کے لیے ہر صورت میں رشوت لینا حرام ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: وفي المصباح: الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له، أو يحمله على ما يريد. (رد المحتار: 5/362)
وقال أیضا: وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه. (رد المحتار: 5/362)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: قالوا: بذل المال لدفع الظلم عن نفسه وماله لا يكون رشوة في حقه وبذل المال لاستخراج حق له على آخر يكون رشوة. (الفتاوی الھندیۃ: 6/150)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
30/جمادی الثانیہ/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |