71818 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
بعض اوقات میرے گھر والے میرے بارے میں کوئی بات بتاتےہیں کہ میں نے فلاں وقت یہ بات کہی تھی جو کہ میری بیوی کے متعلق ہوتی ہے اور منفی قسم کی ہوتی ہے تو ایسی باتیں سننے سےبھی مجھے وہم اور وسوسہ ہوجاتا ہے ۔ کبھی کبھی ان کے بتانے سے بھی مجھے کچھ باتیں یاد آ بھی جاتی ہیں اور کچھ باتیں مجھے یاد بھی نہیں ہوتیں لیکن جو باتیں مجھے یاد آ جاتی ہیں تو مجھے نیت یاد نہیں رہتا کہ اس بات کے کہتے وقت میری نیت کیا تھی ۔ نیت یاد کرنے کے لیے مجھے بہت زیادہ سوچنا پڑتا ہے اور غور کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے میرے ذہن میں مزید وسوسے اور سوالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح سوچنے اور ٖغور و فکر کرنے سے مجھے انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا اس صورت میں بھی میرے نکاح پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے یا نہیں ؟ اگر میں گھر والوں کی اس قسم کی باتوں کو توجہ نہ دوں تو کی یہ ٹھیک رہے گا ؟
بار بار کنایہ الفاظ اور طلاق بائن کے وہم اور وساوس نے اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے نے میری ازدواجی زندگی کو اتنا مشکل بن دیا ہے کہ کبھی کبھی میرا اپنی بیوی کے پاس جانے کو بھی دل نہیں چاہتا کہ کہیں حرام کاری میں مبتلا نہ ہو جاؤں اور ساتھ میں یہ خوف بھی محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میں کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھوں ۔ براہ کرم شریعت کی روشنی میں میری بیماری کو مدنظر رکھ کر آسان اور قابل فہم الفاظ میں رہنمائی فرمائیں تا کہ اس بیماری سے میری جان چھوٹ جائے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ذہن میں طلاق کا خیال اور وساوس آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اگر غالب گمان یہ ہے کہ ان باتوں سے آپ کی مراد طلاق دینا نہیں تھی تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ بہتر یہ ہے کہ ان باتوں پر دھیان نہ دیں ۔ ان باتوں کو جتنا سوچا جائے گا ، ذہن میں مزید وساوس اور خیالات پیدا ہوتے جائیں گے ۔ گھر والوں سے بھی کہیں کہ وہ آپ کے سامنے ان باتوں کا ذکر نہ کریں ۔
حوالہ جات
عبدالدیان اعوان
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
3 رجب 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |