71937 | پاکی کے مسائل | نجاستوں اور ان سے پاکی کا بیان |
سوال
میں ایک مرتبہ چلے کی تشکیل میں تھا۔ مجھے کثرتِ احتلام کی وجہ سے بیس دنوں میں کم و بیش سات دفعہ غسل کرنا پڑا۔ کثرتِ احتلام کی بیماری پرانی ہے، لیکن مسجد کے ماحول سے باہر اِس پر کبھی اتنا دھیان نہیں دیا۔ ساتویں دفعہ احتلام والی رات جب غسل کرنے لے لیے اٹھا تو میں اِس باربار کی مشقت سے کافی بیزار تھا اور اپنا بستر ویسے ہی پڑا رہنے دیا اور غسل کرنے کے لیے چلا گیا۔ جب واپس آیا تو منی ویسے ہی میرے بستر پر تھی اور مسجد کے قالین پر کچھ نمی آگئی تھی۔ میں نے اِس نمی کو معمولی سمجھ کر اور اِس نیت سے کہ صبح اٹھ کر صاف کروں گا، چھوڑ دیا اور سوگیا۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو قالین پر کوئی نشان باقی نہیں تھا۔ اب بتائیں میں کیا کروں جبکہ اب میں گھر آچکا ہوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر تر نجاست خشک ہونے کے بعد نظر نہ آئے، تب بھی اُس قالین یا کپڑے کو پاک کرنا ضروری ہوتا ہے، نجاست خشک ہوجانے سے وہ خود پاک نہیں ہوتا۔ اور قالین وغیرہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین دفعہ پانی سے نجس مقام کو دھویا جائے اور ہر مرتبہ قطرے گرنے رک جانے تک انتظار کیا جائے یا پھر کسی نل کے نیچے رکھ کر قالین کو دھودیا جائے۔ اور اگر خود وہاں جا کر وہ جگہ دھونا ممکن نہیں ہے تو کسی کو اطلاع کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (و) قدر (بتثليث جفاف): أي انقطاع تقاطر (في غيره): أي غير منعصر مما يتشرب النجاسة. (الدر المختار مع رد المحتار: 1/332)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (بتثليث جفاف) أي: جفاف كل غسلة من الغسلات الثلاث وهذا شرط في غير البدن ونحوه. (رد المحتار: 1/332)
وقال أیضا: قوله: (وإلا جرم لها): أي وإن كانت النجاسة المفهومة من المقام لا جرم لها. قوله: (فيغسل) أي: الخف. قال في الذخيرة: والمختار أن يغسل ثلاث مرات ويترك في كل مرة حتى ينقطع التقاطر وتذهب النداوة. (رد المحتار: 1/310)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: وإن كانت غير مرئية... وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات، والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة، وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر، ولا يشترط فيه اليبس. (الفتاوی الھندیۃ: 1/42)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
8/رجب/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |