71938 | پاکی کے مسائل | تیمم کا بیان |
سوال
میں دورانِ تشکیل غسل کے لیے تیمم کرتا تھا، کبھی موسم کے ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے اور کبھی اِس وجہ سے کہ کہیں باقی ساتھی میرے اِس مرض کا مذاق نہ اڑائیں۔ کیا میرا ایسا کرنا جائز تھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
محض ٹھنڈ یا ساتھیوں سے شرم کی بنا پر تیمم کرنا جائز نہیں، البتہ ایسی ٹھنڈ جس میں پانی سے غسل کرنے کی صورت میں بیمار ہوجانے یا بیماری کے بڑھ جانے غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز ہے۔ لہذا جو نمازیں صرف ٹھنڈ یا ساتھیوں سے شرم کی وجہ سے تیمم کرکے پڑھی گئیں، انہیں دوبارہ لوٹانا واجب ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (من عجز عن استعمال الماء لبعدہ ... أو برد) يهلك الجنب، أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام، ولا ما يدفئه.(الدر المختار مع رد المحتار: 1/234)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قال في البحر: فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجه من الوجوه لا يباح له التيمم إجماعا. (رد المحتار: 1/234)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: ويجوز التيمم إذا خاف الجنب إذا اغتسل بالماء أن يقتله البرد أو يمرضه. هذا إذا كان خارج المصر إجماعا، فإن كان في المصر، فكذا عند أبي حنيفة خلافا لهما والخلاف فيما إذا لم يجد ما يدخل به الحمام، فإن وجد لم يجز إجماعا، وفيما إذا لم يقدر على تسخين الماء فإن قدر لم يجز، هكذا في السراج الوهاج. (الفتاوی الھندیۃ: 1/28)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
8/رجب/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |