021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف حقوق کا حکم
71442خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

کیا حقوق اور منافع تمام عقود میں یکساں حکم رکھتے ہیں یا کہ بعض عقود میں؟مثلا بیوی اپنے حق قسمت کے بدلے شوہر سے عوض لے سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حقوق دو قسم ہیں:۱۔ شرعی اور۲۔ عرفی

(۱)شرعی حقوق وہ ہیں جو شارع کی طرف سے نص جلی یا خفی کی بناءپر ثابت ہوں،قیاس کو ان میں کوئی دخل نہ ہو۔

پھر حقوق شرعیہ دو قسم پر ہیں:

۱۔حقوق ضروریہ وہ حقوق جن کی مشروعیت دفع ضرر کے لیے ہوئی ہو جیسا کہ حق شفعہ اور حق قسمت وغیرہ۔اس طرح کے حقوق کا حکم یہ ہے کہ اس قسم کے حقوق کا عوض کسی بھی صورت میں لینا جائز نہیں،نہ بیع کے ذریعہ اور نہ ہی صلح کے ذریعہ،البتہ اس طرح معاملہ کرنے سے صاحب حق کا حق اس شخص کے حق میں ضرور ساقط ہوجاتا ہے جس کے حق میں دستبرداری کااس نے معاملہ کیا ہوتا ہے۔

۲۔دوسری قسم حقوق اصلیہ وہ حقوق جن کی مشروعیت  کسی ضرر کے دفع کے لیے نہ ہوئی ہو جیسا کہ حق قصاص یا حق میراث وغیرہ۔ ایسے حقوق کا حکم یہ ہے کہ ان کی خرید فروخت تو جائز نہیں ،لیکن صلح کے طور پر اس کا عوض لینا اور اپنے حق سے دستبرداری جائز ہے۔

 (۲)حقوق کی دوسری بنیادی قسم حقوق عرفیہ ہیں جو اصحاب حقوق کے لیے عرف کی بنیاد پر ثابت ہوتے ہیں جیسے حق مرور، حق تعلی،حق شرب وغیرہ ان کے بارے میں بھی بعض احناف کی رائے یہ ہے کہ ان کی بیع جائز نہیں، جبکہ دیگر فقہاء کے نزدیک ان کا جواز ہے۔احناف کے مشایخ متاخرین نے ان میں تابع للعین ہونے ،نہ ہونے کی بنیاد پر تفصیل فرمائی ہے اور حقوق تابعہ للعین کی بیع کو جائز قرار دیا ہے۔جیساکہ دوسرے جواب کے ضمن میں گزرچکا۔

 حق قسمت بھی چونکہ حقوق شرعیہ ضروریہ میں سے ہے ،لہذا اس کا عوض لینا جائز نہیں، لیکن اگر بیوی یہ معاملہ کرتی ہے تو جس کے حق میں وہ  بالعوض دستبردار ہوئی ہو،اس بیوی کے حق میں اس کا حق قسمت ساقط ہوجائے گا۔۔( مزید تفصیل ودلائل شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی کے رسالہ"حقوق مجردہ کی خرید فروخت"مندرجہ فقہی مقالات جلدنمبر۱ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 520)
وحاصله: أن ثبوت حق الشفعة للشفيع، وحق القسم للزوجة وكذا حق الخيار في النكاح للمخيرة إنما هو لدفع الضرر عن الشفيع والمرأة، وما ثبت لذلك لا يصح الصلح عنه؛ لأن صاحب الحق لما رضي علم أنه لا يتضرر بذلك فلا يستحق شيئا أما حق الموصى له بالخدمة، فليس كذلك بل ثبت له على وجه البر والصلة فيكون ثابتا له أصالة فيصح الصلح عنه إذا نزل عنه لغيره، ومثله ما مر عن الأشباه من حق القصاص والنكاح والرق وحيث صح الاعتياض عنه؛ لأنه ثابت لصاحبه أصالة لا على وجه رفع الضرر عن صاحبه ولا يخفى أن صاحب الوظيفة ثبت له الحق فيه بتقرير القاضي على وجه الأصالة لا على وجه رفع الضرر، فإلحاقها بحق الموصى له بالخدمة، وحق القصاص وما بعده أولى من إلحاقها بحق الشفعة والقسم، وهذا كلام وجيه لا يخفى على نبيه۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۹رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب