021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چلتے ہوئے کاروبار میں بطورِ مضارب شریک ہونا اور مضارب کا عروض کے ساتھ شرکت بھی کرنا
72148شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

راشد، احمد  کے ساتھ چلتے ہوئے کاروبار میں شریک ہونا چاہتا ہے۔کاروبار میں پہلے سےاحمد  کا سرمایہ  آٹھ  لاکھ روپےبصورتِ سامان  لگاہوا ہےاورراشد اپنا سرمایہ چار لاکھ روپے بصورتِ نقدی لگانا چاہتاہے۔کام کرنے کی مکمل ذمہ داری احمدنے لی ہے،جبکہ نفع و نقصان میں دونوں برابرشریک ہونا چاہتے ہیں۔کیا کاروبار کی یہ صورت درست ہے؟اگر درست نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں ذکر کردہ کاروبار شرعاً مضاربت ہے،جس میں مضارب(یعنی احمد) اپنا سرمایہ لگا کر کاروبار میں شریک بھی ہوگیا۔شرعاً یہ معاہدہ درست ہے،البتہ اس میں کچھ اصول اور شرائط ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. شرکت کے لیے اصلاً دونوں شرکاء کی طرف سےنقدپیسہ ہونا چاہیے۔تاہم اگر شرکت کے لیے نقد رقم پیش کرنے کے بجائے پیش کردہ سامان کی قیمت لگا دی جائے تو یہ بھی درست ہے۔
  2.  یہ ضروری ہے کہ سامان کی قیمت لگوائی جائے اور قیمت لگانے میں قیمتِ فروخت کا اعتبار کیا جائے گا،قیمتِ خرید کا اعتبار نہیں ہوگا۔
  3. مضارب( یعنی احمد) کو اپنا مال رب المال ( یعنی راشد) کے مال میں ملا کر کاروبار کرنے کےلیے رب المال کی اجازت کا ہونا ضروری ہے۔
  4. مضارب میں جب دو حیثیتیں ہوں، ایک حیثیت مضارب ہونے کی، اور دوسری شریک ہونے کی، تو ایسی صورت میں مضارب ان دونوں حیثیتوں سے نفع میں شریک ہوگا۔ مضارب ہونے کی حیثیت میں  نفع کی کوئی بھی شرح باہمی رضامندی سے طے کی جا سکتی ہے،البتہ مضارب  اپنا  جو مال بطور شرکت  لگاتا

ہے،اس سے حاصل ہونے والے نفع کا خود مالک ہوگا، اس کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

  1. صورتِ مسئولہ  میں نفع کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ کل نفع کے بارہ حصے کیے جائیں گے،8 حصے احمد کےبحیثیت شریک کے ہوں گے۔جبکہ باقی چار حصوں کو نفع کےطے کردہ تناسب یعنی مذکورہ معاہدہ میں احمد اور راشد میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔

مضاربت میں نقصان کے ضمان سے متعلق عام  اصول یہ ہے کہ اگر مضارب کی طرف سے تعدی( یعنی لاپرواہی اور کوتاہی) کے بغیر حقیقی نقصان ہوا تو یہ کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع سے پورا کیا جاتا ہے۔البتہ تعدی کی صورت میں مضارب ضامن ہوتاہے۔صورتِ مسئولہ میں احمد چونکہ مضارب ہونے کے ساتھ ساتھ شریک بھی ہے لہٰذا  اگر تعدی کے بغیر نقصان ہوا تو کل نقصان کے بارہ حصے کیے جائیں گے۔آٹھ حصوں کا ذمہ دار احمد ہوگا۔ جبکہ بقیہ نقصان کو سب سے پہلے کاروبار کے اتنے حصے سے حاصل ہونے والے نفع سے پورا کیا جائے گا،جتنے حصے میں مضاربت ہوئی ہے۔اس کے بعد رب المال( یعنی راشد) کےسرمائے سے پورا کیا جائے گا۔

حوالہ جات
"الأصل  أن یکون رأس الشرکۃ موجودات نقدیۃ،یمکن بھا تحدید مقدار رأس المال ، لتقریر نتیجۃ المشارکۃ من ربح أو خسارۃ ،ومع ذالك  یجوز باتفاق الشرکاء الأسھام بموجودات غیر نقدیۃ(عروض)،بعد تقویمھا بالنقد لمعرفۃ مقدار  حصۃ الشریك  ."
 )المعاییر الشرعیۃ:207)
قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالی :أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة بالعروض، وعند مالك  رحمه اللہ : هذا ليس بشرط وتجوز المضاربة بالعروض. (بدائع الصنائع: 82/6)
قال العلامۃ أحمد بن محمد الخلوتي، الشهير بالصاوي رحمہ اللہ تعالی : (و) تصح (بعين) من جانب (وبعرض) من الآخر (وبعرضين) من كل جانب عرض (مطلقا) اتفقا جنسا أو اختلفا، كعبد وحمار أو ثوب. ودخل فيه طعام من جهة وعرض من أخرى. (واعتبر كل) من العرضين أو العرض مع العين (بالقيمة يوم العقد) كالشركة في العين مع العرض بالعين وقيمة العرض، فإن كانت قيمته قدر العين فالشركة بالنصف، وإن كانت قدرها مرتين فبالثلث والثلثين، وفي العرضين بقيمة كل فإن تساويا فبالنصف، وإن تفاوتا
فبحسب كل (إن صحت) الشركة.(حاشية الصاوي على الشرح الصغير:3/459)
 حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے شرکت بالعروض میں مالکیہ کے قول پر فتوی دیا ہے۔چنانچہ امداد الفتاوی میں شرکت بالعروض کے ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں:" اس صورت میں کمپنی قائم کرنے والوں کی طرف سے شرکت بالنفقہ نہ ہوگی،بلکہ بالعروض ہوگی،سو بعض ائمہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے….پس ابتلائے عام کی وجہ سے اس مسئلہ میں دیگر ائمہ کے قول پر فتوی دے کر شرکتِ مذکورہ کے جواز کا فتوی دیا جاتا ہے۔" (امدادالفتاری:3/495)
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی فتاوی عثمانی میں اس قول پر فتوی دیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:"حاجت کے وقت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے شرکۃ بالعروض میں مالکیہ کا قول اختیار کرنے کی گنجائش دی ہے۔یہ گنجائش یہاں بھی ہو سکتی ہے۔" (فتاوی عثمانی:3/38)
(وأما) القسم الذي للمضارب أن يعمله إذا قيل له: اعمل برأيك وإن لم ينص عليه، فالمضاربة والشركة والخلط، فله أن يدفع مال المضاربة مضاربة إلى غيره، وأن يشارك غيره في مال المضاربة شركة عنان، وأن يخلط مال المضاربة بمال نفسه، إذا قال له رب المال: اعمل برأيك، وليس له أن يعمل شيئا من ذلك، إذا لم يقل له ذلك ،أما المضاربة فلأن المضاربة مثل المضاربة.(بدئع الصنائع: 95/6)
وكذا له أن يخلط مال المضاربة بمال نفسه؛ لأنه فوض الرأي إليه، وقد رأى الخلط، وإذا
ربح قسم الربح على المالين، فربح ماله يكون له خاصة، وربح مال المضاربة يكون بينهما على الشرط.(بدائع الصنائع: 98/6)
قال العلامۃ فخر الدین الزیلعی رحمہ اللہ تعالی :(وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع، ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح ،لا العكس، فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل، كما يصرف الهالك إلى العفو في الزكاة (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد.(تبیین الحقائق:5/67،68)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :(لا) يملك (المضاربة) والشركة والخلط بمال  
نفسه (إلا بإذن، أو اعمل برأيك) إذ الشيء لا يتضمن مثله.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ  : والربح إنما يستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان …  
قوله:( والخلط بمال نفسه) أي أو غيره كما في البحر إلا أن تكون معاملة التجار في تلك البلاد أن المضاربين يخلطون، ولا ينهونهم فإن غلب التعارف بينهم في مثله وجب أن لا يضمن كما في التتارخانية. (الدر المختار مع رد المحتار: 649/5)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

   9  رجب/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب