021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں تقسیمِ وراثت کی تفصیل
72057میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

  1. مرحوم محمدولدحاجی محمد عیسیٰ لنڈ کے ترکہ کی تقسیم مندرجہ ذیل ورثہ کے لحاظ سے کس طرح ہوگی؟ ترکہ کے کتنے حصےہوں گے اور کس طرح تقسیم ہوں گے؟ مرحوم کے ورثہ میں والدہ،ایک بیوی،نو بیٹیاں،چار بہنیں اور چار بھائی ہیں۔
  2. مرحوم کا ذاتی گھر بیوی کی ملکیت ہوگا یا ورثاء میں تقسیم ہو گا؟
  3.  مرحوم محمد کے قبضے میں جو سرکاری زمین ہے،خواہ اس کی سند(حکومت سے اجازت نامہ) ہو یا نہ ہو،تو وہ ترکہ میں تقسیم ہوگی یا نہیں؟ مفصل و مدلل رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

 سوال نمبر تین کی تنقیح: ہمارے ہاں اگر کوئی شخص سرکاری زمین پر قابض ہو جائے تو بسا اوقات حکومت اسے اس زمین کی سند(اجازت نامہ) جاری کر دیتی ہے،جس کے بعد کوئی دوسرا شخص اس زمین پر قبضہ نہیں کر سکتا،پھر حکومت کو جب اس زمین کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ کچھ رقم ادا کرکے وہ قبضہ واپس لے لیتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. صورت مسئولہ میں مرحوم پر اگر کسی بھی شخص کا قرض ہوتو ترکہ میں سے سب سے پہلے وہ قرض ادا کیا جائے گا،پھر باقی مال کے چوبیس (24)حصے کرکے،ان میں سے تین (3)حصے مرحوم کی زوجہ، چار(4)حصےوالدہ اور ایک(1)حصہ مرحوم کے آٹھ بہن بھائیوں میں تقسیم کیا جائے گا،جس میں بھائیوں کو بہنوں کے مقابلہ میں دوگناحصہ ملے گا،جبکہ سولہ(16)حصے مرحوم کی نو (9) بیٹیوں میں برابر تقسیم کیے جائیں گے۔

فیصد کےلحاظ سے12.5%فیصدحصہ زوجہ کو،16.66%فیصدحصہ والدہ کو اور 4.16%فیصد حصہ بہن بھائیوں کو ملے گا،جس میں سے ہر بھائی کو 0.692%حصہ،جبکہ ہر بہن کو 0.346% حصہ ملےگا اور 66.66%فیصد  حصہ بیٹیوںکوملے گا،جس میں سے

ہر بیٹی کو7.40% فیصد حصہ ملے گا۔آسانی کے لیے ذیل میں نقشہ دیا گیا ہے ۔

  1. مرحوم کا ذاتی گھر بھی ورثہ میں تقسیم ہوگا۔
  2. تنقیح سےمعلوم ہواہےکہ یہ زمین اصلاً گورنمنٹ کی ہی ہوتی ہے۔حکومت قبضے کا اختیار بغرض حفاظت دیتی ہےاورحکومت قبضے کی جو سند(اجازت نامہ) جاری کر تی ہے،اس کامقصد بھی حفاظت کرنا ہی ہوتاہے۔ان زمینوں پر تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی، البتہ کاشت کاری کی اجازت ہوتی ہے۔پھربعدمیں حکومت جو پیسےدےکروہ زمین واپس لیتی ہے ،وہ رقم بھی بہت معمولی ہوتی ہے۔اس تفصیل کی روشنی میں یہ زمین  گورنمنٹ کی ہی ملکیت شمار ہوگی،اس لیے اس  میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔

ورثہ

عددی حصے

      فیصدی حصے

زوجہ

تین(3)حصے

12.5%

ولدہ

چار(4)حصے

16.66%

نوبیٹیاں

(ہر بیٹی کا حصہ)

سولہ(16)حصے

 

66.66%

(7.40%)

آٹھ بہن بھائی

(ہر بھائی کا حصہ)

(ہر بہن کا حصہ)

ایک(1)حصہ

-----

-----

4.16%

(0.692%)

(0.346%)

کل ورثہ

کل حصے:24

کل فیصد:100

حوالہ جات
قوله تعالى:يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ فَإنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثا ما تَرَكَ[النساء:11]
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ  اللہ تعالی :فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد، أو ولد ابن.قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :قوله: (مع ولد) :  أي للزوج الميت ذكرا أو أنثى، ولو من غيرها.
 ( الدر المختار مع رد المحتار:10/512)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ  اللہ تعالی : (وللأم) ثلاثة أحوال (السدس
مع أحدهما)قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :قوله: (مع أحدهما): أي الولد وولد الابن، ذكرا أو أنثى . (أیضاً:10/514)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ  اللہ تعالی : العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت،ثم أصله، ثم جزء أبيه، ثم جزء جده (ويقدم الأقرب  فالأقرب منهم) بهذا الترتيب.قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :قوله: )ويقدم الأقرب فالأقرب إلخ) أي الأقرب جهة، ثم الأقرب درجة، ثم الأقوى قرابة، فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع ويقدم  جزء أبيه على جزء جده . (أیضاً:10/518)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ  اللہ تعالی : ثم شرع في العصبة مع غيره ،فقال:(ومع غيره الأخوات مع البنات) قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله:(الأخوات مع البنات) أي الأخوات لأبوين.(10/523)
قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:الأخوات لأب وأم للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان، كذا في خزانة المفتين ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين، ولهن الباقي مع البنات أومع بنات الابن، كذا في الكافي.(الفتاوی الھندیۃ:6/450)

     عرفان حنیف

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

9 رجب/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب