021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
برائلر مرغی کی خوراک کا حکم
72001جائز و ناجائزامور کا بیانجانوروں کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ برائلر مرغی کی خوراک میں مردہ مرغیوں کی آنتیں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا یہ بننے والی خوراک حلال ہے یا حرام؟ اور اُن کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جانوروں کی خوراک میں قصدا نجس اور حرام اجزاء شامل کرنا جائز نہیں۔ لہذا خوراک تیار کرنے والے اداروں کو اِس سے احتراز کرنا لازم ہے۔ البتہ جانوروں کو ایسی خوراک کھلانے اور اُس کی خرید و فروخت کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اُس میں نجس اجزاء کی مقدار زیادہ اور پاک اجزاء کی مقدار کم ہو تو ایسی خوراک نہ تو جانوروں کو کھلانا جائز ہے اور نہ ہی اُس کی خرید و فروخت درست ہے۔ اور اگر خوراک میں پاک اجزاء کی مقدار زیادہ اور نجس اجزاء کی مقدار کم ہو تو ایسی خوراک جانوروں کو دینا بھی جائز ہے اور اُس کی خرید و فروخت بھی درست ہے۔ برائلر مرغی سمیت آج کل دیگر حیوانات کی جو خوراک تیار کی جاتی ہے، اُس میں چونکہ نجس اجزاء کی مقدار کم اور پاک اجزاء کی مقدار غالب ہوتی ہے، لہذا اُسے مرغیوں کو دینا جائز ہے اور اُس کی خرید و فروخت بھی درست ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ جانوروں کو بھی حلال اور پاک غذا ہی کھلائی جائے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وفي الذخيرة: ولا بأس برش الماء النجس في الطريق، ولا يسقى للبهائم. وفي خزانة الفتاوى: لا بأس بأن يسقى الماء النجس للبقر والإبل والغنم.(البحر الرائق: 1/132)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (وما عجن به) معطوف على الوضوء. قوله: (فيطعم للكلاب)؛ لأن ما تنجس باختلاط النجاسة به والنجاسة مغلوبة لا يباح أكله، ويباح الانتفاع به فيما وراء الأكل، كالدهن النجس يستصبح به إذا كان الطاهر غالبا، فكذا هذا حلية عن البدائع، ويفهم منه أن العجين ليس بقيد فغيره من الطعام والشراب مثله. تأمل.(رد المحتار: 1/218)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (كره بيع العذرة) رجيع الآدمي (خالصة لا) يكره، بل يصح بيع (السرقين) أي الزبل، خلافا للشافعي (وصح) بيعها (مخلوطة بتراب أو رماد غلب عليها) في الصحيح (كما صح الانتفاع بمخلوطها) أي العذرة، بل بها خالصة على ما صححه الزيلعي وغيره خلافا لتصحيح الهداية، فقد اختلف التصحيح وفي الملتقى أن الانتفاع كالبيع أي في الحكم فافهم. (الدر المختار مع رد المحتار: 6/385)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: إنما تكون جلالة إذا نتن وتغير لحمها ووجدت منه ريح منتنة فهي الجلالة حينئذ لا يشرب لبنها، ولا يؤكل لحمها وبيعها وهبتها جائز. هذا إذا كانت لا تخلط ولا تأكل، إلا العذرة غالبا، فإن خلطت فليست بجلالة، فلا تكره؛ لأنها لا تنتن، ولا يكره أكل الدجاج المخلي، وإن كان يتناول النجاسة؛ لأنه لا يغلب عليه أكل النجاسة، بل يخلطها بغيرها وهو الحب. والأفضل أن يحبس الدجاج حتى يذهب ما في بطنها من النجاسة، كذا في البدائع. (الفتاوی الھندیۃ: 5/590)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

10/رجب /1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب