021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
” اب یہ رشتہ ختم ہے اور میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” کہنے کا حکم
72029طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

ہماری طرف سے تمام سامان بھیج دیا گیا ہے، اب ہماری طرف سے سب چیزیں دے دی گئی ہیں اور اب یہ فیصلہ حتمی ہے ، ہماری طرف سے یہ رشتہ ختم ہے۔ سونے کی چین اور لاکٹ جو پہن کر گئی ہو وہ واپس بھجوا دیجیے۔کچھ عرصہ بعد شوہر نے یہ الفاظ کہے کہ ہماری شادی کو تین سال ہو چکے ہیں، تمہاری حرکتوں کی وجہ سے میں سید محمد فیضان علی ولد سید اصغر علی اپنے پورے ہوش وحواس میں تمہیں زہرہ بنت راشد کو طلاق دیتا ہوں، تمہاری خواہش ایک گھر کی تھی، اب تم اپنے بڑوں اور اپنے وارثوں کے ساتھ رہو اور اپنی گزارو  اپنی من چاہی آزاد زندگی۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

وضاحت:سائل نے بتایا کہ تین سال پہلےجھگڑے کے دوران شوہر نے یہ الفاظ کہے تھے: "اب ہماری طرف سے سب چیزیں دے دی گئی ہیں اور  اب یہ فیصلہ حتمی ہے ، ہماری طرف سے یہ رشتہ ختم ہے۔" اس کے بعد میاں بیوی کے درمیان رجوع ہو گیا  دوبارہ نکاح نہیں ہوا تھا اور دوسال تک خاتون اپنے شوہر کے پاس رہی ہے، اب  ایک سال سے عورت اپنے والدین کے گھر ہے اور ابھی ایک ہفتہ پہلے شوہر نے یہ الفاظ لکھ کر بھیجے ہیں: "تمہاری حرکتوں کی وجہ سے میں سید محمد فیضان علی ولد سید اصغر علی اپنے پورے ہوش وحواس میں تمہیں زہرہ بنت راشد کو طلاق دیتا ہوں، تمہاری خواہش ایک گھر کی تھی، اب تم اپنے بڑوں اور اپنے وارثوں کے ساتھ رہو اور اپنی گزارو  اپنی من چاہی آزاد زندگی۔"

     سائل نے یہ بھی بتایا کہ خاتون جب اپنے والدین کے گھر آئی تو اس وقت حاملہ تھی، والدین کے گھر اس کی بچی کی ولادت ہوئی اور اس کے بعد سے اب تک اپنے شوہر کے پاس نہیں گئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں تین سال پہلے شوہر کی طرف سے کہے گئے الفاظ"اب ہماری طرف سے سب چیزیں دے دی گئی ہیں اور  اب یہ فیصلہ حتمی ہے ، ہماری طرف سے یہ رشتہ ختم ہے۔" کنایاتِ طلاق سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ  الفاظ طلاق کی نیت سے کہے گئے تھے، (جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ الفاظ غصے کی حالت میں بولے گئے تھے، نیز آپ نے اس میں رجوع کرنے کا بھی  ذکر کیا ہے اور میاں بیوی کے درمیان رجوع طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے) تو  اس صورت میں ان الفاظ  سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی تھی اور فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا تھا، اس کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کیے بغیر فریقین کا ایک ساتھ اکٹھے رہنا جائز نہیں تھا، لہذا اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔

جہاں تک اس كے بعد ایک ہفتہ پہلے کہے گئے الفاظ :"میں اپنے پورے ہوش وحواس میں تمہیں زہرہ بنت راشد کو طلاق دیتا ہوں" کا تعلق ہے تو ان کا حکم یہ ہے کہ سوال میں ذکرکردہ وضاحت کے مطابق عورت کے اپنے والدین کے گھر آنے کے بعد بچی کی ولادت ہوئی اور اس کے بعد سے اب تک خاتون اپنے سابقہ شوہر کے پاس نہیں گئی، لہذا ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ پہلی طلاقِ بائن سے فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا تھا اور پھر ولادت ہونے سے خاتون کی عدت بھی گزر چکی تھی اور عدت گزر جانے کے بعد طلاق واقع نہیں ہوتی۔لہذا فریقین کے درمیان نکاح ختم ہونے کی وجہ سے اب عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں بااختیار ہے اور سابقہ شوہر سے نکاح کرنے کی صورت میں اس (شوہر) کو دو طلاقوں کا حق ہو گا، لہذا آئندہ کے لیے طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 375) دار الفكر، بيروت:
ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى۔
المبسوط للسرخسي (6/ 82) دار المعرفة ، بيروت:
إذا قال لا نكاح بيني وبينك ولا سبيل لي عليك فهو نفي في الحال، وفي المستقبل لا في الماضي فتسع فيه نية الطلاق بالاتفاق۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

10/رجب المرجب 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب