021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لاک ڈاؤن کے زمانے میں اساتذہ کی تنخواہوں کا حکم
73060اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

سوال:ہمارے ملک(برما) کے مدارس  میں اساتذہ کا تقرر دو طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔(الف):مدتِ عمل  کی صراحت کے بغیر تقرر کیا جاتا ہے ۔(ب):تقرری فارم میں  یہ صراحت کی جاتی ہے کہ آپ کا تقرر اس مدرسہ میں ایک سال  کے لیے کیا جاتا ہے ۔اس فارم پر دستخط ہر سال لیا جاتا ہے ،جس کو تقرر نہ کرنے کی منظوری ہوتی ہے اس کو سال کے شروع میں تقرری فارم نہیں دیا جاتا۔ ان مذکورہ دو صورتوں سے متعلق یہ پوچھنا ہے کہ تنخواہ کا استحقاق اس موجودہ صورتحال (یعنی کورونا کی بیماری کی وجہ سے مدارس بالکلیہ بند ہیں ) میں ہوگا یا نہیں ؟

دوسری صورت کے بارے میں بالخصوص پوچھنا ہے کہ مدارس کی انتظامیہ نے جن اساتذہ کونیا تقرری فارم جاری نہیں کیا  اور سال کی انتہاء رمضان تک ہے تو کیا اساتذہ اس سال یعنی شوال سے آخر تک کی تنخواہ کے مستحق ہوں گے یا نہیں ؟اس دوسری صورت کے بارے میں بعض احباب یہ کہتے ہیں کہ اساتذہ تنخواہ کے مستحق ہیں ،کیونکہ تقرر ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے ۔ہرسال نیا فارم لینے کا مقصد انتظامیہ کی اپنی سہولت ہوتی ہے ،تاکہ بآسانی کسی استاذ کا اخراج کیا جاسکے۔ دوسری یہ بھی حقیقت ہے کہ سال کے شروع میں جس استاذکو تقرری فارم نہیں ملتا وہ لاچار ہوجاتا ہے اور وہ قانوناً بھی کچھ نہیں کرسکتا۔اس دوسری صورت کے بارے میں بعض احباب کا موقف یہ ہے کہ یہ استاذ اجیرِخاص  ہے، ملازمت کی مدت ختم ہوتے ہی وہ مدرسہ سے لاتعلق ہوجاتا ہے ۔تجدید تقرری فارم کے بغیر وہ تنخواہ کا استحقاق نہیں رکھتا ۔ ان دو رائیوں میں سے جو رائے موافق شرع ہو ،بیان فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تعطیلات سالانہ ہوں یا ماہانہ(خواہ اتفاقی ہوں یا ہنگامی ) ان میں اجرت کے بارے میں اگر ادارے کی طرف سے کوئی ضابطہ مقرر ہے تو اس ضابطے کے مطابق عمل کیا جائے گا،چنانچہ دوسری صورت جس میں اساتذہ کا تقرر  سالانہ بنیادوں پر کیا جاتا ہے ، اس میں تجدید اجارہ کی ممکنہ دو صورتیں ہیں ۔پہلی صورت یہ ہے کہ مدت کے اختتام پر دوبارہ عقد کر لیا جائے ، دوسری صورت یہ ہے کہ مقررہ مدت کے اختتام پر اگر صراحت کے ساتھ اجارہ کا عقد ختم نہ کیا جائے تو عرفاً اسے تجدید اجارہ سمجھا جاتا ہو اس صورت میں چاہے باقاعدہ تحریری معاہدہ نہ کیا جائے، سابقہ عقد برقرار رہے گا ، لہذا جن اساتذہ سے ادارہ نے سالانہ تقرری کا معاہدہ کیا تھا اور مدت کے اختتام پر  معاہدہ کی تجدید نہیں کی گئی ، جبکہ وہ اساتذہ تجدیداجارہ نہ ہونے کی وجہ سے قانوناً بھی کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو گویا عرفاً تجدید اجارہ کے لیے تحریری معاہدہ ضروری ہے،لہذامدت  یعنی سال ختم ہونے کے بعدوہ اساتذہ   بقیہ ماہ کی اجرت کے مستحق نہیں ہوں گے اور ادارہ ان اساتذہ کو صرف رمضان تک کی اجرت دینے کا پابند ہے۔

البتہ پہلی صورت جس میں مدتِ عمل کی صراحت کے بغیر اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے تو اس صورت میں وہ اساتذہ  اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی اجرت کے مستحق معلوم ہوتے ہیں ،کیونکہ :

(1):اساتذہ ادارہ کے اجیر ِخاص ہوتے ہیں اور اجیر خاص میں اصل معقود علیہ تسلیم ِ نفس ہے ۔عمل کرنا ضروری نہیں ۔لہذا جو اساتذہ ادارہ کے قواعد کے مطابق تسلیم نفس پر راضی ہوں ، تو وہ تنخواہ کے مستحق ہونے چاہییں، گرچہ (تعطیلات کی وجہ سے )عملاً حاضر نہ ہورہے ہوں ۔

(2):  جن اساتذہ کا تقرر مدتِ عمل کی صراحت کے بغیر ہوتا ہے ، ان سے بھی ادارہ کی طرف سے عقد اجارہ ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے ،(لیکن چونکہ فریقین  خاموش رضامندی سے  ایک دوسرے کے ساتھ  عقد میں منسلک رہتے ہیں ) اس لیے مدت ِاجارہ ختم ہونے کے بعد اگلا اجارہ خود بخود منعقد ہوجاتا ہے ،لہذا اگر ادارہ کی طرف  سے عقدِ اجارہ ختم  نہ کیا گیا ہو تو لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی اسے جاری سمجھا جائے گا اور وہ اساتذہ تنخواہ کے مستحق ہونگے  ۔ 

حوالہ جات
المجلة (ص: 82)
الأجير الخاص يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع من العمل وإذا امتنع فلا يستحق الأجرة
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 387)
 ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل . أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة , فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة .
الدر المختار (6/ 69)
( والثاني ) وهو الأجير ( الخاص ) ويسمى أجير واحد ( وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو ) شهرا ( لرعي الغنم ) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصاوليس للخاص أن يعمل لغيره ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل  فتاوى النوازل

عبدالدیان اعوان 

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی 

16 رجب 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب