021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم بچی کی پرورش کا حق ماں کو کب تک حاصل رہتا ہے؟
72141طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

جناب 2016 میں میری بیٹی کے شوہر کا انتقال ہوا اور میری بیٹی بیوہ ہوگئی،اس کے ساتھ ایک نو ماہ کی بیٹی تھی،ابھی وہ بچی اپنی ماں کے ساتھ ہے اور میری بیٹی کے سسرال نے اس بچی کا کوئی خرچہ نہیں دیا،اس کا اور اپنی بیٹی کا سارا خرچہ میں برداشت کررہا ہوں،اب سوال یہ ہے کہ

1۔ کب تک یہ بچی اپنی ماں کے ساتھ رہ سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس بچی کی پرورش کا حق نو سال تک ماں کو حاصل ہے،مرحوم باپ کے ورثہ کو زبردستی لینے کا کوئی حق نہیں ،اس کے بعد مرحوم کے ورثہ یعنی بچی کا دادا،چچا یا دادا کا بھائی چاہیں تو اسے لے سکتے ہیں ،ماں کو روکنے کا حق نہ ہوگا،البتہ اگر اس دوران ماں نے کسی ایسے مرد سے نکاح کرلیا جو بچی کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو اس کی پرورش کا حق ختم ہوجائے گا،اس کے بعد نانی کو پرورش کا حق حاصل ہوگا،اگر نانی نہ ہو یا وہ پرورش پر آمادہ نہ ہو تو پھر دادی کو حق حاصل ہوگا،اگر دادی نہ ہو یا وہ بھی پرورش پر آمادہ نہ ہو تو پھر خالہ کو یہ حق حاصل ہوگا۔

مرحوم والد کے ورثہ کو بلوغت تک بچی کو اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہے،بچی جب بالغ ہوجائے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگےتو پھر شریعت نے اسے اختیار دیا ہے کہ جہاں چاہے رہےیعنی ماں کے ساتھ یا مرحوم والد کے ورثہ کے ساتھ،کوئی اسے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 541):
"وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير".
"الدر المختار للحصفكي " (ج 3 / ص 621):
"(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع ،وبه يفتى؛ لانه الغالب".
"البحر الرائق " (ج 11 / ص 199):
"( قوله ومن نكحت غير محرم سقط حقها ) أي : غير محرم من الصغير كالأم إذا تزوجت بأجنبي منه لقوله { عليه الصلاة والسلام أنت أحق به ما لم تتزوجي } ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا وينظر إليه شزرا فلا نظر له".
"الفتاوى الهندية" (1/ 542):
"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع كذا في شرح الطحاوي.
والجارية إن كانت ثيبا وغير مأمونة على نفسها لا يخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب