021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلام آبادکی ایک مسجدکےلیےمعمارکے رکھے قبلہ کی تصدیق کا حکم
72212نماز کا بیاننماز کی شرائط کا بیان

سوال

  میں ایک معمار ہوں اور میں کسی بھی نئے مسجد کے لیے قبلہ رکھنے یاپرانی مسجد کو نئے سرے سے تعمیرکرتے وقت اس کےلئے قبلہ رکھنے کے حوالےسے تفصیلی فتوی  کا خواہشمند ہوں ،براہ کرم مجھے اس کی فوری ضرورت ہے،میں نے ایک مسجد کے لئے سمتِ قبلہ کا حساب لگایا ہے جس کی جلد ہی تزیین و آرائش ہونے والی ہے۔ مجھے صرف اس بات کی تصدیق کی ضرورت ہے کہ میں نےسمتِ قبلہ کتنا درست رکھاہے.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ قبلہ رخ ہونانماز کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط ہے ۔اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لہذا سمتِ قبلہ کی تعیین میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے،محض اندازے سے یہ کام سرانجام دینا بالکل مناسب نہیں ،اس میں اسی فن کے ماہرین سے مدد لینی چاہیے،آپ چونکہ  معمارہیں اوراس فن میں متخصص نہیں،لہذا آپ کوچاہیےکہ یا تو براہِ راست ماہرین سے یہ فن سیکھ لیں کیونکہ یہ اتنامشکل کام نہیں ہےیا اس کام کے لیے اس کے ماہرین سے مددلیاکریں ،اسلام آباد یااس کے قرب وجوارمیں اس کے ماہریں ہونگے ان سے رابطہ کریں۔

آپ نے مسجد کاقبلہ اسلام آباد میں رکھاہےاورہمیں معلوم نہیں کہ آپ نے کس طرح رکھاہے،لہذا اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ  فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ  وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ  وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا
يَعْمَلُونَ (البقرة: 144)
{وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ}
 [البقرة: الآية 150]
وفی تفسیر ابن کثیر:
عن عمير بن زياد الكندي ، عن علي ، رضي الله عنه ، ( فول وجهك شطر المسجد الحرامقال : شطره : قبله . ثم قال : صحيح الإسناد ولم يخرجاه .وهذا قول أبي العالية ، ومجاهد ، وعكرمة ، وسعيد بن جبير ، وقتادة ، والربيع بن أنس ، وغيرهم . وكما تقدم في الحديث الآخر : ما بين المشرق والمغرب قبلة .[ وقال القرطبي : روى ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " ما بين المشرق والمغرب قبلة لأهل المسجد ، والمسجد قبلة لأهل الحرم ، والحرم قبلة لأهل الأرض في مشارقها ومغاربها من أمتي " ] .......وقوله : ( وحيثما كنتم فولوا وجوهكم شطرهأمر تعالى باستقبال الكعبة من جميع جهات الأرض شرقا وغربا وشمالا وجنوبا ، ولا يستثنى من هذا شيء ، سوى النافلة في حال السفر ، فإنه يصليها حيثما توجه قالبه ، وقلبه نحو الكعبة . وكذا في حال المسايفة في القتال يصلي على كل حال ، وكذا من جهل جهة القبلة يصلي باجتهاده ، وإن كان مخطئا في نفس الأمر ، لأن الله تعالى لا يكلف نفسا إلا وسعها .
وفی الھدایة (1/95)باب شروط الصلوة التی تتقدمھا:
ویستقبل القبلة لقولہ تعالی فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ  ثم من کان بمکة ففرضہ اصابة عینھا ومن کان غائبا ففرضہ اصابة جھتھا ھو الصحیح لان التکلیف بحسب الوسع.
وفی فتح القدیر:
في التجنیس: هذا یشیر إلی أن من کان بمعاینتہ الکعبۃ، فالشرط إصابۃ عینها، ومن لم یکن بمعاینتها، فالشرط إصابۃ جهتها، وهو المختار۔ ( باب شروط الصلوۃ التي تتقدمہا، کوئٹہ ۱/ ۲۳۴-۲۳۵، زکریا ۱/ ۲۷۴-۲۷۶)
قال اللہ تعالی:
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْ ۚ فَسْـَٔلُوٓاْ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴿النحل/ آیة :45﴾
وفی تفسیر ابن کثیر:
وفى الآية دليل على وجوب الرجوع إلى أهل العلم فيما لا يعلم ، وعلى أن الرسل جميعا كانوا من الرجال ولم يكن من بينهم امرأة قط .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

17/7/1442ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب