021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لاک ڈاؤن میں ملازمین کی تنخواہ کا حکم
72395اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو صورتحال حال پیدا ہوئی ہے، اور سب کچھ بند پڑا ہے کیا ایسے حالات میں وہ لوگ جو کسی بھی جگہ ملازم ہیں انہیں تنخواہ لینے اور مانگنے کا حق ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں جن اداروں نے یا  جن افراد نے  تنخواہ ادا کرنی ہے ان کا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملازمین یا سیلز مین کام نہ کر پائے اور نہ ڈیوٹی پر آ سکے تو تنخواہ کس چیز کی دیں؟ ملا زمین کی طرف سے سوال ہوگا انہوں نے سال بھر کے لیے کام کرنے کا عہد کیا ہوا تھا اگرلاک ڈاؤن  کی وجہ سے ڈیوٹی پر نہ آ سکے تو اس میں  ان کا کیا قصور ہے ؟اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ملازم جب خود کو ایک مخصوص دورانیے کے لیے ادارے کے سپرد کر دے تو وہ تنخواہ کا مستحق ہوتا ہے۔ اگر بعد میں ادارہ ملازم سے کام نہ لے سکے،  تب بھی وہ تنخواہ کا مستحق ہے۔ جب تک ملازم کا اپنے ادارے یا کمپنی وغیرہ سے معاہدہ برقرار ہو وہ تنخواہ طلب کرنے اور وصول کرنے کا حق دار ہے۔اب لاک ڈاؤن کی صورت حال میں جن ملازمین  کا معاہدہ اپنے ادارے یا کمپنی وغیرہ سے ختم ہو گیا تھا، شرعاً وہ تنخواہ کے حق دار نہیں۔ اور ایسے ملازمین جن کا اپنے ادارے یا کمپنی وغیرہ سے معاہدہ برقرار رہا ، شرعاً وہ تنخواہ کے حق دار ہیں۔لیکن لاک ڈاؤن کی ہنگامی صورتِ حال اور کام نہ ہونے کی وجہ سےمالکان کو بھی مالی مسائل درپیش رہے۔ ان حالات میں ملازمین اور مالکان باہمی رضامندی سےکوئی ایسی صورت اختیار کریں جس سے فریقین کو ضرر نہ ہو۔

حوالہ جات
 (والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير واحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة.
(تنویر الأنصار مع رد المحتار: 94,95/9)
وأما الأجير الخاص فهناك وإن وقع عمله إفسادا حقيقة إلا أن عمله يلتحق بالعدم شرعا؛ لأنه لا يستحق الأجرة بعمله بل بتسليم نفسه إليه في المدة. (بدائع الصنائع: 241/4)
الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل. (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: 458/1)
(الأجير الخاص) وهو (من يعمل لواحد) قيد صاحب الدرر بقوله: عملا مؤقتا بالتخصيص، وقال: فوائد القيود عرفت مما سبق (ويسمى أجير وحد) أيضا (ويستحق) الأجير الخاص (الأجر بتسليم نفسه) أي الأجر (مدته) أي العقد سواء عمل أو لم يعمل مع التمكن بالإجماع. (مجمع الأنھر: 393/2)

راجہ باسط علی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

18/رجب/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ باسط علی ولد غضنفر علی خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب