021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کادلالوں کو ہٹاکربراہِ راست عوام سے گاڑیاں بیچنے کا ایک مخصوص عقد کرنے کا شرعی حکم
72223خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

 کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ان آخری سالوں میں ہمارا ملک پابندیوں اور پیسے کے گرنے کی وجہ سے اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی روک تھام کے لیے دلالوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تاکہ عوام مناسب ریٹ پر گاڑیاں خرید سکیں،لیکن ایک خاص پلان اور منصوبہ کے مطابق۔

پلان نمبر1:گاڑی خریدنے والے کمپنی کی ویب سائٹ پر درخواست جمع کروائیں گے پھر کمپنی والے اسکا نام قرعہ اندازی میں ڈال دیں گے ،اگر اس کا نام نکل آیا تو ان سات شرطوں پر اسکو گاڑی ملے گی۔

1۔ایک شناختی کارڈ پر ایک گاڑی ملےگی۔

2۔گاڑی کی قیمت اسی وقت معین کر کے اعلان کردیا جائے گا۔

3۔قرعہ اندازی میں جسکا نام نکلا ہے اسے گاڑی کی پوری قیمت ادا کرنی پڑے گی،اگر اس نے پوری قیمت ادا نہ کی تو لسٹ سے اسکا نام خارج کر دیا جائے گا۔

4۔کمپنی والوں کا فرض ہے تین مہینے کے اندر گاڑی مالک کے سپرد کردیں۔

5۔قرعہ اندازی کے ذریعے جسکا نام نکلا تھا گاڑی فقط اسی کو ملے گی دوسرے تیسرے کے نام پر گاڑی نہیں دی جائے گی۔

6۔اگر کمپنی والے تین مہینے کے اندر گاڑی نہ دیں ،تو دیر ہونے کی صورت میں گاڑی خریدنے والے کو ہرجانہ دیں گے۔

7۔گاڑیاں خریدفروخت کرنے والی کمپنی کے مطابق یہ گاڑی کسی کی وکالت میں نہیں دی جائے گی۔

چند نکتے:1۔گاڑی کی درخواست جمع کرنے والا استعمال شدہ نمبر پلیٹ اس گاڑی پر نہیں لگائے گا۔

2۔درخواست جمع کرنے والا ڈرائیونگ لائنس بھی رکھتا ہو ،استعمال شدہ نمبر پلیٹ بھی نہ لگائے وگرنہ تین سال تک اس کمپنی میں درخواست نہیں دے سکے گا۔

3۔قرعہ اندازی سے پہلے کسی قسم کے پیسے نہیں دینے پڑے گے۔

 پلان نمبر 2۔کمپنی میں درخواست جمع کروائیں گے، قرعہ اندازی میں اگر اسکا نام نکل آیا تو آدھی قیمت اسی وقت دینی پڑے گی ،دوسری آدھی قیمت ایک سال کے بعددےگا،لیکن ایک بات یاد رہے کہ اگر سال کے بعد گاڑی کی قیمت بڑھی ہوئی ہوگی تو اسی حساب سے پیسے دینے پڑیں گے۔اوراگر کمپنی کی طرف سے دیر ہوجائے تو کمپنی والوں پر ہرجانہ لازم ہوگا۔

ان دو طریقوں میں تین امور ہیں:

امرِ اول۔قرعہ اندازی کے وقت ایک فارم دیا جائے گا مثلاً اس شخص نے گاڑی خریدنے کی درخواست دی ہے ،پس یہ ایک اولویت شمار ہوگی اوراس کےلیے خاص ہوگی، تاکہ وہ تیسرے شخص کو بیچ نہ سکے۔

امرِ دوم۔جب گاڑی خریدنے والا سارے پیسے ادا کردے گا اسی وقت ایک اور فارم دیا جائے گا جس میں گاڑی کی تمام مشخصات ذکر ہوں گی مثلا اسکا رنگ،اسکا ماڈل وغیرہ اور خریدنے والا شخص کسی اور کو بیچ سکتا ہے۔

امرِ سوئم۔اگر خریدنے والے کے پاس پورےپیسے نہ ہوں تو کسی اور کو اپنا شریک بنا کر خریدسکتا ہے۔

اگر ان تمام صورتوں یعنی آخری تین امور کو دیکھا جائے تو یہ قانوناً جرم ہے لیکن لوگوں میں یہ کام عام ہوچکا ہے خالی فارم اور حوالہ جات اٹھاکر خرید و فروخت کرتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت سے پیسے کمانا حلا ل ہے؟ یا حرام؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پلان نمبر ایک جس میں گاڑی کی پوری قیمت شروع میں دینی پڑتی ہےاس کی تخریج سلم پر ہوسکتی ہے مگر

اس میں مسلم فیہ ﴿گاڑی﴾کی تاخیر پر جرمانے کی جو شرط لگائی گئی ہے وہ اس معاملےکو  فاسد کردیتا ہے، لہذا سلم پر اس کی تخریج نہیں ہوسکتی، لہذا صاحبین کے قول کے مطابق استصناع پراس کی تخریج کی جائے،ان کے قول کے مطابق یہ معاملہ استصناع ہوسکتاہے، اس لیےکہ ان کے ہاں مدت کابیان مہلت کے بجائے تعجیل کے لیے ہوتاہے، جوکہ جائز ہے،لہذا صاحبین رحمھماللہ کے قول کے مطابق یہ معاملہ استصناع ہے،اورشرعاً  جائز ہے۔

رہی بات شرط نمبر7کی کہ گاڑی کسی کی وکالت میں نہیں دی جائے گی،تویہ شرط عرف میں مشہورہونے کی وجہ سے مفسدِ عقد نہیں ۔

اورجہاں تک شرط نمبر6 کاتعلق ہےکہ دیر ہونے کی صورت میں گاڑی خریدنے والے کو کمپنی والے ہرجانہ دیں گے۔ تویہ شرط بھی استصناع میں جائز ہے،مفسدِ عقدنہیں،کیونکہ یہ تاخیر کی وجہ سے ثمن میں کٹوتی ہے، جرمانہ نہیں۔کمافی فقہ البیوع وستأتی عبارتہ .

پلان نمبردو جس میں آدھی قیمت ایک سال کے بعد دینی ہوتی ہے اس کی تخریج صرف استصناع پر ہوسکتی ہے، سلم پر نہیں، اس لیے کہ سلم میں پوری قیمت شروع میں دینا ضروری ہوتی ہے اوریہاں ایک سال تک کی مہلت ہے۔لہذا یہ صرف استصناع ہے،جس میں ثمن کی تاخیر ہوسکتی ہے،بیع سلم نہیں اورشرعاً یہ معاملہ جائز ہے۔

فارم نمبر ایک کےملنے کےبعد تو گاڑی کی آگے بیع نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ ابھی تک گاڑی کی بیع ہوئی نہیں،صرف وعدہ بیع ہوا ہےاورقانوناًبھی بقول سائل اس طرح کی فروخت ممنوع ہے لہذا اس حالت میں خالی فارم کی بیع منافع کے ساتھ جائز نہیں،ہاں جتنے کا فارم لیاہےاتنے کا لینے والا آگے دے سکتاہے۔

فارم نمبر دو کے بعد بیع تو ہوجاتی ہے،مگرچونکہ مبیع ﴿گاڑی﴾پرابھی تک قبضہ نہیں ہوا، اس لیے اس حالت میں بھی گاڑی کی آگے بیع کرنا جائزنہیں ہے۔

پوری قیمت جمع کرانے سے پہلے پہلے تو کسی کو ساتھ ملاکراستصناع کے اس معاملے میں شریک کیاجاسکتاہے،کیونکہ ابھی تک بیع نہیں ہوئی،لہذا دو یا اس سےزیادہ آدمی ملکرگاڑی خریدنے کایہ معاملہ کرسکتے ہیں، لیکن جب قیمت جمع کرادی جائے اور فارم مل جائے توپھرچونکہ بیع مکمل ہوجاتی ہے،لہذا اب کسی اورکو اس میں شریک کرنا بیع سے پہلے مبیع میں تصرف کرناہوگا جوکہ جائزنہیں۔ لہذا اس حالت میں کسی اورکو شریک نہیں کیاجاسکتا۔

 

حوالہ جات
وفی الھدایۃ:
ولا یصح السلم عند أبي حنیفۃ إلا بسبع شرائط: جنس معلوم، کقولنا: حنطۃ، أو شعیر، ونوع معلوم، کقولنا سقیۃ أو نجسیۃ، وصفۃ معلومۃ، کقولنا: جید أو ردي، ومقدار معلوم، کقولنا: کذا کیلا بمکیال معروف، أو کذا وزنا وأجل معلوم، ومعرفۃ مقدار رأس المال إذا کان یتعلق العقد علی مقدارہ کالمکیل والموزون والمعدود، وتسمیۃ المکان الذي یوفیہ فیہ إذا کان لہ حمل ومؤنۃ۔ (ھدایۃ، باب السلم، أشرفی دیوبند ۳/
وفی المعاییر الشرعیة:
5/7ولایجوز الشرط الجزائی عن التاخیرفی تسلیم المسلم فیہ.........مسندالمنع الشرط الجزائی فی السلم ان المسلم فیہ عبارة عن دین ،ولایجوز اشتراط الزیادة فی الدیون عند التاخیر،لان ذلک من الربا.
وفی البحر الرائق شرح (ج 16 / ص 446)
( ومؤجله سلم ) أي إذا أجله المستصنع صار سلما وهذا عند أبي حنيفة ، وقالا إن ضرب الأجل فيما فيه تعامل فهو استصناع وإن ضرب فيما لا تعامل فيه فهو سلم لتعذر جعله استصناعا ويحمل الأجل فيما فيه تعامل على الاستعجال.
درر الحكام شرح غرر الأحكام - (ج 6 / ص 282)
( وصح ) البيع ( في النعل ) استحسانا للتعامل فيه فصار كصبغ الثوب
رد المحتار - (ج 19 / ص 338)
ولو باع على أن يحيل المشتري البائع على غيره بالثمن فسد قياسا وجاز استحسانا .... ( قوله ومثله تسمير القبقاب ) أصله للمحقق ابن الهمام حيث قال : ومثله في ديارنا شراء القبقاب على أنه يستمر له سيرا ( قوله استحسانا للتعامل ) أي يصح البيع ويلزم للشرط استحسانا للتعامل .والقياس فساده ؛ لأن فيه نفعا لأحدهما وصار كصبغ الثوب ، مقتضى القياس منعه ؛ لأنه إجارة عقدت على استهلاك عين الصبغ مع المنفعة ولكن جوز للتعامل ومثله إجارة الظئر ، وللتعامل جوزنا الاستصناع مع أنه بيع المعدوم ، ومن أنواعه شراء الصوف المنسوج على أن يجعله البائع قلنسوة ، أو قلنسوة بشرط أن يجعل البائع لها بطانة من عنده ، وتمامه في الفتح .
وفی فقہ البیوع :2/1167
یجوز الاتفاق فی العقدعلی شرط جزائی بان الصانع ان تاخرفی تسلیم المصنوع فانہ ینقص من ثمنہ جزء مقابل للتاخیر.
3/1/3یشترط قبض راس مال السلم فی مجلس العقد.....مسند قبض راس المال فی مجلس العقد ھو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم من سلف فیسلف فی کیل معلوم ﴿رواہ البخاری ومسلم﴾والتسلیف والاسلاف ھو التقدیم ،ولانہ سمی سلما لمافیہ من تقدیم راس المال ،فاذا تاخرلم یکن سلما ولان تاخیر دفع راس المال عن مجلس العقد ، والتفریق من غیر تقابض یجعل العقد کالئابکالیٴ  ای دینا بدین وھو منھی عنہ ،ومتفق علی تحریمہ قال ابن رشد واما الدین بالدین فاجمع المسلمون علی تحریمہ.
 
وفی فقہ البیوع 2/1165
﴿فی الاستصناع﴾لایجب ان یکون المثن معجلاکمافی السلم ،بل یجوز ان یکون معجلااو موجلااو مقسطا ،ویجوز ایضا ان تکون اقساط الثمن مرتبطة بالمراحل المختلفة لانجاز المشروع ،اذا کانت تلک المراحل
منضبطة فی العرف ،بحیث لاینشا فیھا نزاع۔
وفی البحر الرائق شرح (ج 16 / ص 446)
( ومؤجله سلم ) أي إذا أجله المستصنع صار سلما وهذا عند أبي حنيفة ، وقالا إن ضرب الأجل فيما فيه تعامل فهو استصناع وإن ضرب فيما لا تعامل فيه فهو سلم لتعذر جعله استصناعا ويحمل الأجل فيما فيه تعامل على الاستعجال.
فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (4/ 264)
طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض وفی حاشية ابن عابدين تحتہ والأصل فيه قوله تعالى {وأولي الأمر منكم} [النساء: 59] ....وعن ابن عمر أنه  عليه الصلاة والسلام قال «عليكم بالسمع والطاعة لكل من يؤمر عليكم ما لم يأمركم بمنكر» ففي المنكر لا سمع ولا طاعة.
وفی فقہ البیوع(2/1164):
وبماان المصنوع ملک للصانع، ولیس ملکا للمستصنع قبل التسلیم،فلایجوز للمستصنع ان یبیعہ قبل ان یسلم الیہ.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

19/7/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب