021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کے ترکہ میں سے روزوں کا فدیہ اداکرنے کا حکم
72363روزے کا بیانروزے کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

عورت جس کا شوہرہو اور بچے نہ ہوں ۔ماں باپ بھی شادی کے کچھ عرصے بعد انتقال کر گئے تھے،عورت کے بہن اور بھائی زندہ ہوں ،میاں بیوی کرائے کے گھر میں رہتے ہوں ،شوہر کم تنخواہ دار ہو, اور اپنی عادت کی وجہ سے اپنے دوستوں  کے ساتھ ہوٹلوں میں زیادہ خرچ کر دیتا ہو،اور گھر میں صرف فلیٹ کا کرایہ اور بل ادا کرتا ہو، گھر خرچ، کھانےپینے اور مہینے کا خرچ پورا نہ کرتاہو۔(عورت کے)بہن بھائی اسکی مدد کرتےہوں،عورت (بیوی) اپنی وراثت کے حصے کی رقم اور کبھی اپنے جہیزکےزیور بیچ کر گزر بسر کرتی تھی ۔یہ عورت جس کی عمر ۶۵ سا ل  سے زیادہ تھی،پندرہ بیس سال سے بہت کمزور اور بیمار تھی ۔شوہر بے حس  تھا ،اس نے انکی بیماری کا کوئی علاج بھی نہیں کروایا۔۲۰  فروری ۲۰۲۱؁ کو وہ رضا الہی سے انتقال فرماگئی۔

آخری ماہ بیماربہن  کے علاج معالجے پر سارا خرچہ  عورت کی بہن اور بھائیوں نے کیا۔تدفین ،کفن اور قبر کے انتظام  کا سارا  خرچہ بھی  بھائیوں نے کیا ۔

اب اس عورت کا انتقال ہوگیا ،اس کا کچھ زیور (تین تولہ کے قریب ہے )اور کچھ رقم جو اس نے برے وقت کے لیے رکھی تھی ،(پچاس ، ساٹھ ہزار )جس میں شوہر کاکوئی حصہ نہیں تھا بلکہ اپنا اور بہن بھائیوں کا تھا ۔اب اس عورت  کے تمام  بہنیں  اور  بھائی  یہ چاہتےہیں،کہ زیور بیچ کر اور رقم جمع کرکے  کسی زیر تعمیر مسجد یا فلاحی ادارے کو دے دی جائے،اس کےعلاوہ سب یہ بھی چاہتے ہیں کہ پہلے اس کی تقسیم اسلامی طریقے سے ہو، شوہر کا اور بہن بھائیوں کا کتنا حصہ ہوگا۔اس کے علاوہ پہلے بیماری اور کمزوری کی وجہ سے جو روزے وہ نہ رکھ سکی ،اس کا فدیہ’’ جو وہ زندگی میں غربت کی وجہ سے وقت پر ادا نہ کرسکی‘‘ ادا کر دیا جائے۔

سوال : عورت کی ملکیت (ترکہ )    کی جورقم  (زیور اور کچھ رقم ) ہے ،اس میں سے پہلے روزوں کا فدیہ نکال سکتے ہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں مرحومہ نے اگر قضا روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے توپہلے  اس کا  فدیہ  ترکہ میں سے ہی اداکیاجائے گا،یعنی کل متروکہ مال کے ایک تہائی حصہ(۳ /۱)سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، پھر اگرپورا  فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو ٹھیک ہے،ورنہ شرعاً  بقیہ فدیہ کی ادائیگی  ورثہ کے ذمے لازم نہیں ہے، تاہم اگر تمام  ورثاءعاقل بالغ ہوں اور وہ  اپنی خوشی سے مرحومہ کے روزوں کا فدیہ ادا کریں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا، اور امید ہے کہ مرحومہ کی طرف سے قبول ہوگا۔

حوالہ جات
البناية شرح الهداية (4/ 85)
 (ومن مات وعليه قضاء رمضان فأوصى به) ش: معناه قرب من الموت (أطعم عنه وليه لكل مسكينا نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو شعير) روى كذلك سليمان التيمي عن عمر بن الخطاب وابن عباس - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - م: (لأنه عجز عن الأداء في آخر عمره فصار كالشيخ الفاني) في جواز الفدية عنه بسبب العجز الكامل. (ثم لا بد من الإيصاء عندنا)  يعني إذا أوصى يلزم الإطعام عنه على الولي من ثلث ماله وبه قال مالك فيجزئه إن شاء الله، وإن لم يوص لا يلزم على الولي الإطعام، ومع هذا لو أطعم جاز إن شاء الله.
اللباب في شرح الكتاب (1/ 171)
(ومن مات وعليه قضاء رمضان فأوصى به أطعم عنه وليه) إن خرجت من ثلث ماله، وإلا فيقدر الثلث (لكل يوم مسكيناً نصف صاع من بر أو صاعاً من تمر أو صاعاً من شعير) ، لأنه عجز عن الآداء في آخر عمره فصار كالشيخ الفاني، ثم لابد من الإيصاء عندنا (2) ، حتى إن مات ولم يوص بالإطعام عنه لا يلزم على ورثته ذلك ولو تبرعوا عنه من غير وصية جاز؛ وعلى هذا الزكاة. هداية.

وقاراحمد

دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

۲۲رجب ا۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب