021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسکول کے معذور طلبہ پر زکاة صرف کرنے کا حکم
72172زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

پاک بحریہ کے زیر انتظام تعلیم وتربیت کے لیے سپیشل چلڈرن اسکول سرگرم عمل ہے،اس اسکول میں سماعت،بصارت سے محروم اور دیگر معذور بچے زیر تعلیم ہیں،ان بچوں میں سے بہت سے بچوں کے والدین اسکول کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے،اس لیے ان بچوں سے یا تو فیس نہیں لی جاتی یا پھر کم لی جاتی ہے،ان وجوہات کی وجہ سے اسکول کے اپنے اخراجات جس میں سب سے زیادہ حصہ اساتذہ کی تنخواہ کا ہے پورے نہیں ہوتے،اسکول کا نظام ایک بینک اکاؤنٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے،ایسی صورت حال میں کیا زکوة کی رقم اس بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائی جاسکتی ہے،جوکہ بعد ازاں اسکول کے اخراجات میں استعمال ہوگی،ایسے بچوں کے اخراجات زکوة کی رقم سے پورے کیے جانے کی شرعاً کیا کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ ذیل میں چند ممکنہ صورتیں درج کی جاتی ہیں:

  1. معذور بچوں کے تعلیمی اخراجات یعنی ٹیوشن فیس وغیرہ
  2. معذور بچوں کے آلات مثلا آلہ سماعت،وہیل چیئر،بیساکھی وغیرہ کی خریداری
  3. معذور بچوں کے سفری اخراجات یعنی گھر سے اسکول آنے جانے کی وین فیس
  4. معذور بچوں کی دماغی اور جسمانی بہتر نشو و نما کے لیے خوراک کے اخراجات
  5. معذور بچوں کے لباس اور یونیفارم کے اخراجات
  6. معذور بچوں کے لیے تربیتی اخراجات یعنی مخصوص کھلونے اور سکھانے کے لیے تربیتی آلات
  7. معذور بچوں کے لیے کھیل کا سامان اور ان کے کھیلوں کی تربیت کے اخراجات
  8. معذور بچوں کے لیے تعلیمی مواد کی خریداری
  9. اساتذہ کی تنخواہ کے اخراجات

مذکورہ بالا جن جن صورتوں میں زکوة کی رقم خرچ ہوسکتی ہے،براہِ کرم ان کی وضاحت فرمادیں۔

تنقیح :سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ اس اسکول میں  ہر طرح کے بچے ہیں،بالغ بھی ہیں اور نابالغ بھی،ایسے بچے بھی ہیں جن کے والد صاحب نصاب ہیں اور ایسے بھی جن کے والد صاحب نصاب نہیں،ان کے علاوہ یتیم بچے بھی ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے تو آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ کے اسکول میں زیرِ تعلیم  بچوں میں  سے درج ذیل قسم کے بچوں پر زکاة کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے:

1۔ایسے بالغ بچے جو صاحبِ نصاب نہ ہوں،یعنی اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض یا سب  کا مجموعہ اتنی مقدار میں نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ (۳۵ء ۶۱۲ گرام )چاندی کے برابر ہو۔

2۔ایسے نابالغ بچے جو خود بھی صاحب نصاب نہ ہوں اور ان کے والدین بھی صاحبِ نصاب نہ ہوں۔

3۔ایسے یتیم بچے جن کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال نہ ہو۔

4۔یہ بچے سید نہ ہوں۔

لیکن زکوۃ کی ادائیگی کے لیے  مستحقِ زکوۃ  شخص  کو  رقم کا  مالک   بنا کر دینا ضروری ہے ، اگر زکوۃ کی رقم مستحق شخص   کو مالک بنا کر نہ دی گئی  تو زکوۃ  ادا نہ  ہو گی ،لہذا آپ یا تو زکوة کی رقم سے ان طلبہ کی ضرورت کی چیزیں خرید کربراہ راست   ان کو مالک بنائیں  اور  اگر  اس میں انتظامی طور پر کوئی مشکل ہو   تو مستحقِ زکوة بالغ طلبہ سے بذاتِ خود،جبکہ نابالغ طلبہ کے ایسے سرپرستوں سے جو خود صاحب نصاب نہ ہوں زکوة کی وصولی کے لیے وکالت نامہ فارم پر دستخط لیے جاسکتے ہیں ، وکالت نامہ فارم پر دستخط لینے کے بعداسکول انتظامیہ مذکورہ تمام اخراجات کی فیس تمام بچوں پر لاگو کرے،پھر ہر ماہ کے اختتام پر جس بچے کو جتنی رعایت دینی ہو اتنی رقم زکوة کی مد میں حاصل ہونے والے فنڈ سے وصول کرکے اسکول کے اخراجات یا نفع میں شامل کردی جائے۔

وکالت نامہ فارم کی عبارت یوں بنائی جاسکتی ہے کہ:

میں بالغ طالب علم /نابالغ طالب علم  کا سرپرست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکول  کےانچارج /منتظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شناختی کارڈ نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو اس بات کا اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری  /  میرے زیر ِ کفالت کی طرف سے  وکیل بن کر لوگوں سے زکوۃ اور  صدقات  واجبہ وصول کریں، پھر میری طرف سے وکیل بن کر  میری / ان کی اور دیگر مستحق طلبہ کے تعلیم و تعلم  کی ضروریات  پر خرچ کریں۔

نیز اس حوالے سے بہتر یہ ہے کہ آپ زکاة کی وصولی کے لیے الگ اکاؤنٹ کھولیں،تاکہ زکاة کی رقم دیگر عام رقوم کے ساتھ خلط نہ ہو۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 349):
"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز لانتفاء المانع.
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ  (قوله: وطفل الغنية) أي ولو لم يكن له أب بحر عن القنية (قوله: لانتفاء المانع) علة للجميع والمانع أن الطفل يعد غنيا بغنى أبيه بخلاف الكبير فإنه لا يعد غنيا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا الطفل بغنى أمه ح في البحر".
" رد المحتار " (2 / 377):

"قوله: (تمليكا) فلا يكفي فيها الاطعام إلا بطريق التمليك، ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط. وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق، إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالاب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الاخذ كما في المحيط".

"الفتاوی الھندیۃ"(189/1):

"ولا یجوز الدفع الی من یملک نصابا أی مال کان دنانیر، أو دراہم، أو سوائم، أو عروضا للتجارۃ أو لغیرالتجارۃ فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ فی جمیع السنۃ کذا فی الزاہدی".
"بدائع الصنائع " (4 / 3):
"ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز ؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة لوجود التمليك من الفقير ؛ لأنه لما أمره به صار وكيلا عنه في القبض فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم" .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب