72244 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں :
دوستوں میں لڑائی ہوئی تو ایک نے دوسرے سے کہا " اگر میں نے تجھ سے صلح کی تو میری بیوی کو تین طلاق "اب کیا صلح کی صورت میں طلاق واقع ہو گی ؟اور اگر صلح دوسرے دوست کی جانب سے ہو تو پھر مسئلہ کی صورت کیا ہو گی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تین طلاقوں کو دوست سے صلح کرنے کے ساتھ معلق کرنے سے طلاق معلق ہو جاتی ہے ، لہذا اگر اب وہ اس دوست سے صلح کرتا ہے تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی ۔
صلح چاہے یہ بندہ خود کرے یا سامنے والا بندہ پہل کرے اور یہ راضی ہو جائے، دونوں صورتوں میں یہی حکم ہے کہ صلح کرنے سے اس کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی ،کیونکہ دونوں صورتوں میں صلح میں یہ شخص شامل سمجھا جائے گا۔
حوالہ جات
لفتاوى الهندية (1/ 420)
ثم الشرط إن كان متأخرا عن الجزاء فالتعليق صحيح وإن لم يذكر حرف الفاء إذا لم يتخلل بين الجزاء وبين الشرط سكوت ألا ترى أن من قال لامرأته: أنت طالق إن دخلت الدار يتعلق الطلاق بالدخول وإن لم يذكر حرف الفاء لما لم يتخلل بينهما سكوت وإن كان الشرط مقدما على الجزاء فإن كان الجزاء اسما فإنما يتعلق بالشرط إذا ذكر الجزاء بحرف الفاء حتى إن قال لامرأته إن: دخلت الدار فأنت طالق يتعلق الطلاق بالدخول ولو قال: إن دخلت الدار أنت طالق يقع الطلاق للحال إلا إذا قال عنيت به التعليق فحينئذ يدين فيما بينه وبين الله - تعالى - ولا يدين في القضاء.
وإذا كان الجزاء فعلا إما فعل مستقبل أو فعل ماض فالجزاء يتعلق بالشرط بدون حرف الفاء ويبتنى على هذا الأصل ما إذا قال لها: إن دخلت الدار وأنت طالق فإنها تطلق للحال وإن قال: عنيت التعليق لا يدين أصلا هكذا ذكر في الجامع
عبدالدیان اعوان
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
17 رجب 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |