021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اونٹوں کی زکوۃ کا حکم
72603زکوة کابیانجانوروں کی زکوة کابیان

سوال

السلام علیکم و رحمۃ الله وبركاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس چار اونٹ ہیں، ابھی دو ماہ پہلے ایک اونٹنی نے بچہ جنا تو پانچ ہو گئے۔ اب زکوۃ  اس بچے  کے سال پورا ہونے کے بعد فرض ہوگی یا بس ابھی سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر ان اونٹوں کو چارہ خرید کر کھلایا جاتاہے تو ان پر زکوۃ نہیں۔ لیکن اگر یہ سال کا اکثر حصہ خودرو گھاس چرتے ہوں تو جب تک چار اونٹ تھےتو اِن  میں زکوۃ واجب نہیں تھی، جیسے ہی ایک اونٹنی نے بچہ جنا تو تعداد پانچ ہونے کی وجہ سے یہ صاحبِ نصاب ہو گئے۔ اب قمری سال کے گزرنے کے بعد اسی تاریخ کو اگر اس کے پاس پانچ ہی اونٹ ہوں تو ایک بکری اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو اس کی تعداد کے مطابق مزید بکریاں ادا کرنا ضروری ہوں گی۔یاد رہے کہ اگر صرف جانوروں کے بچے ہوں تو اِن پر زکوۃواجب نہیں ہوتی، اگر ساتھ بڑے جانور بھی ہوں تو ان کے تابع ہو کر اِن پر بھی زکوۃ واجب ہو گی۔ لیکن اگر اونٹ تجارت کے لیے ہوں تو پھر اِن میں تعداد کا اعتبار نہیں، دیگر اموالِ تجارت کی طرح اگر اِن کی قیمت بقدرِ نصاب ہو تو سال گزرنے پر زکوۃ  (مال کے چالیسواں حصہ ) کی ادائیگی واجب ہو گی۔

حوالہ جات
(و) لا في (حمل) بفتحتين ولد الشاة (وفصيل) ولد الناقة (وعجول) بوزن سنور: ولد البقرة؛ .......(إلا تبعا لكبير)ولو واحدا. ( الدر المختارمع رد المحتار:  206,207/3)
إذا كانت له سوائم كبار وهي نصاب فمضت ستة أشهر مثلا فولدت أولادا ثم ماتت وتم الحول على الصغار لا تجب الزكاة فيها عندهما،......، وفي القهستاني عن التحفة: الصحيح قولهما. والخلاف، أي المذكور آنفا مقيد بما إذا لم يكن فيها كبار، فإن كان كما إذا كان له مع تسع وثلاثين حملا مسن، وكذلك في الإبل والبقر كانت الصغار تبعا للكبير ووجب إجماعا كذا في الدراية. (رد المحتار: 207/2)
السائمۃ ھی المکتفیۃ بالرعی فی أکثر العام لقصد الدر والنسل والزیادۃ والسمن. (تنویر الأبصارمع رد المحتار: 196/3)
فلو أسيمت للحمل والركوب لم تكن السائمة المستلزمة شرعا لحكم وجوب الزكاة، بل لا زكاة فيها، ولو أسامها للتجارة كان فيها زكاة التجارة لا زكاة السائمة. (فتح القدیر: 171/2)
(ليس في أقل من خمس ذود صدقة، فإذا بلغت خمسا سائمة، وحال عليها الحول ففيها شاة إلى تسع) واعلم أن تقدير النصاب والواجب أمر توقيفي. وفي المبسوط: إن إيجاب الشاة في خمسة من الإبل لأن المأمور به ربع العشر بقوله - عليه الصلاة والسلام - «هاتوا ربع عشر أموالكم» والشاة تقرب من ربع عشر الإبل. (فتح القدیر:  172/2)
(فلو علفها نصفه لا تكون سائمة) فلا زكاة فيها للشك في الموجب.  (قوله: للشك في الموجب) بكسر الجيم وهو كونها سائمة، فإنه شرط لكونها سببا للوجوب. قال في فتح القدير: العلف اليسير لا يزول به اسم السوم المستلزم للحكم، وإذا كان مقابله كثيرا بالنسبة كان هو يسيرا، والنصف ليس بالنسبة إلى النصف كثيرا ولأنه يقع الشك في ثبوت سبب الإيجاب. فافهم. (رد المحتار: 198/3)

راجہ باسط علی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

23/رجب/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ باسط علی ولد غضنفر علی خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب