021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حق زوجیت کی ادائیگی کی مدت اور مقدار شرعی کیا ہے؟
72278نکاح کا بیانکئی بیویوں میں برابری کا بیان

سوال

بیوی کی طرف سےحق زوجیت کی ادائیگی کے مطالبہ کو پورا نہ کرنے پر بسا اوقات دو سے تین ماہ تک کا عرصہ بھی گزرجاتا ہے، اس بارے میں سؤال یہ ہے کہ حق زوجیت کی ادائیگی کی شرعی مدت اور مقدار کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حق زوجیت کی ادائیگی کے لیے شرعا کوئی خاص متعین مدت یا مقدار متعین نہیں،بلکہ اس بارے میں زوجین بالخصوص بیوی کے صحت ،طاقت اور برداشت کو معیار بنایا گیا ہے، اس لیے کہ بیوی کے صحت ،برداشت اور طاقت سے زیادہ کے ناجائز ہونے میں بھی کلام نہیں اور بیوی کے صحت ،قوت اور برداشت کے تناظر میں مدت کی تعیین میں بنیادی طور پرخودبیوی کی بات کو قسم کے ساتھ معتبر مانا جائےگا، نیز اس بارے میں فیصلہ کے لیے ماہرمعالجین کی رائے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ مدت اور مقدار کی تعیین میں بیوی کی بات کااعتبار اس وقت ہے، جبکہ اس کو کثرت جماع سے نقصان اور ضرر لاحق ہونے کا ظن غالب ہو، ورنہ بلا وجہ انکار یامحض پہلو تہی کا نہ تو کوئی جواز ہے اورنہ ہی تعیین مدت ومقدار میں ایسی عورت کی بات کا اعتبار ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ عام حالات میں حق زوجیت کے ادائیگی کے وقفہ کو چار ماہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 203)
ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا
 (قوله نهر بحثا) حيث قال: ومقتضى النظر أنه لا يجوز له أن يزيد على قدر طاقتها، أما تعيين المقدار فلم أقف عليه لأئمتنا، نعم في كتب المالكية خلاف فقيل يقضي عليهما بأربع في الليل وأربع في النهار، وقيل بأربع فيهما. وعن أنس بن مالك عشر مرات فيهما. وفي دقائق ابن فرحون باثني عشر مرة.
وعندي أن الرأي فيه للقاضي فيقضي بما يغلب على ظنه أنها تطيقه اهـ. قال الحموي عقبه: وأقول ينبغي أن يسألها القاضي عما تطيق ويكون القول لهما بيمينها لأنه لا يعلم إلا منها وهذا طبق القواعد، وأما كونه منوطا بظن القاضي فهو إن لم يكن صحيحا فبعيد. هذا،
وقد صرحوا عندنا بأن الزوجة إذا كانت صغيرة لا تطيق الوطء لا تسلم إلى الزوج حتى تطيقه. والصحيح أنه غير مقدر بالسن بل يفوض إلى القاضي بالنظر إليها من سمن أو هزال. وقدمنا عن التتارخانية أن البالغة إذا كانت لا تحتمل لا يؤمر بدفعها إلى الزوج أيضا، فقوله لا تحتمل يشمل ما لو كان لضعفها أو هزالها أو لكبر آلته. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة فيما يحرم على الزوج وطء زوجته مع بقاء النكاح قال: وفيما إذا كانت لا تحتمله لصغر أو مرض أو سمنة. اهـ.
وربما يفهم من سمنه عظم آلته. وحرر الشرنبلالي في شرحه على الوهبانية أنه لو جامع زوجته فماتت أو صارت مفضاة، فإن كانت صغيرة أو مكرهة أو لا تطيق تلزمه الدية اتفاقا. فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي إلى إضرارها فيقتصر على ما تطيق منه عددا بنظر القاضي أو إخبار النساء، وإن لم يعلم بذلك فبقولها وكذا في غلظ الآلة، ويؤمر في طولها بإدخال قدر ما تطيقه منها أو بقدر آلة الرجل معتدل الخلقة، والله تعالى أعلم

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۵رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب