021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
افطار کے لئے کئے جانے والے وقفہ میں اوفق بالسنة کتناوقفہ کرنا ہوگا؟
72404نماز کا بیاناوقاتِ نمازکا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

   رمضان  المبارک میں افطارکے لیےجو وقفہ کیا جاتاہےاس میں  اقرب الی السنة کتنا وقفہ کرناہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعتِ مطہرہ  نے ابتداء اورانتہاء بیان کرکے روزے کے وقت کی تحدید کردی ہےاوریہ بتادیاہےکہ روزہ فلاں وقت سےشروع ہوتاہے اور فلاں وقت پر ختم ہوتاہے،شریعت نے روزے کا جو انتہائی وقت بتایاہے وہ لیل یعنی رات ہے اورشرعی رات سب کو معلوم ہے کہ سورج غروب ہوتےہی شروع ہوجاتی ہے لہذا رات ہوتے ہی افطارکرلینا چاہیے، اورافطاری میں جتنی جلدی کی جائے گی اتنا ہی وہ اوفق بالسنت ہوگااورثواب کی زیادتی اورخیر  کا ذریعہ ہوگا،ہاں یہ  ضروری ہےکہ پہلے  آفتاب کےغروب ہوجانے کاپوراپورایقین کرلیاجائےاورپھر افطارشروع کیاجائے ،لہذا اگراپنی آنکھوں سے آفتاب کو ڈوبتے ہوئے دیکھ لیاہوتب توکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا،فوراً ہی روزہ افطار کرلیناچاہئے اوراگرسورج خود آنکھوں سےغروب ہوتےہوئےنہیں دیکھابلکہ اوقات کےسلسلہ میں چھپے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیاجارہاہے،توپھرکچھ احتیاط بہترہے،اس لیے کہ  وہ ایک حسابی چیز ہے اور حساب میں انیس بیس کافرق ہوسکتاہے،اورساتھ ساتھ اس کی بنیادگھڑی پرہے، اور گھڑیاں بھی آگے پیچھےہوسکتی ہیں،اس لیےجووقت ٹائم ٹیبل میں لکھاہوتا ہے، اس میں کچھ منٹ احتیاط کی جائے،یہ احتیاط کتنی ہو؟  اس میں  ہر ایک کاذوق مختلف  ہے،کوئی زیادہ احتیاط کرتاہے اوربہت زیادہ کرتاہے اورکوئی کم،تقریباًدوسے لیکر پانچ منٹ تک کا احتیاط نقشوں میں درج جاتاہے،ہماری نظر میں اگرپہاڑی علاقہ نہ تو دو منٹ کی احتیاط کافی ہےاوراگرپہاڑی علاقہ ہواورمتعلقہ مقام پہاڑکے اونچائی پرہوتو احتیاط کچھ زیادہ کی جائےمثلاً پانچ منٹ تک احتیاط کی جائے، تاکہ سورج کےغریب ہونے کااچھی طرح یقین ہوجائے۔

حوالہ جات
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (ج 1 / ص 181)
( و ) يستحب تعجيل ( المغرب ) في الفصول كلها لقوله عليه الصلاة والسلام { بادروا بالمغرب قبل اشتباك النجوم } أي كثرتها .
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (ج 1 / ص 406)
قال رحمه الله ( والمغرب ) أي ندب تعجيل المغرب لما روي { أنه عليه الصلاة والسلام كان يصلي المغرب إذا غربت الشمس وتوارت بالحجاب } رواه البخاري ومسلم وقال رافع بن خديج { كنا نصلي المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فينصرف أحدنا وأنه ليبصر مواقع نبله } رواه أحمد والبخاري ومسلم ويكره تأخيرها إلى اشتباك النجوم لقوله عليه الصلاة والسلام { لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب حتى تشتبك النجوم } رواه أحمد واشتباكها كثرتها ولإمامة جبريل عليه الصلاة والسلام أنه صلاها في اليومين في وقت واحد رواه أحمد وغيره ولولا أنه مكروه لصلاها في وقتين كما فعل في سائر الصلوات وكان عيسى بن أبان يقول تعجيلها أفضل ولا يكره تأخيرها ألا ترى أنها تؤخر لعذر السفر والمرض للجمع بينها وبين عشاء الأخيرة فعلا ولو كان مكروها لما أبيح له ذلك كما لا يباح له تأخير العصر إلى تغير الشمس ، وكذا روي أنه عليه الصلاة والسلام صلاها عند مغيب الشفق على ما بينا وهو عندنا محمول على أنه عليه الصلاة والسلام فعل ذلك لبيان امتداد الوقت .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

28/7/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب