021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
افطار کے لیے 20منٹ وقفے کا حکم
72405نماز کا بیاناوقاتِ نمازکا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

  رمضان المبارک میں افطار اورنمازِ مغرب کے درمیان بیس منٹ کا وقفہ کرناشرعاً  کیساہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بہتر تو  یہ ہے کہ رمضان میں بھی مختصر افطاری کرکے جلداز جلد نماز ِمغرب اداکی جائے اورتفصیلی افطاراورکھانانماز کے بعد کیاجائے،تاہم افطار بھی بہرحال ایک شرعی عذرہےاورخاص طوران لوگوں کے حق میں جوبیمار اورکمزورہوتے ہیں اورجن کو نمازسے پہلے کچھ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے  تاکہ اطمینان سے مغرب کی نماز پڑھ سکے،لہذا افطارکے لیے وفقہ بھی ناگزیرہے اورامت کا تعامل بھی اس حوالے سےکچھ دیر وفقے کا رہاہے اس لئے اگر افطارکےلیے کچھ دیروفقہ کیاجائے تو شرعاً اس کی گنجائش ہوگی،البتہ یہ بات قابلِ غورہے کہ  اذان واقامت کے درمیان  افطارکا یہ وقفہ کتنا ہو؟ توشریعت نے اس حوالے سےاپنی طرف سے کوئی ایسا حتمی وقت طے نہیں کیا کہ جس میں کمی زیادتی ممکن نہ ہو ! لہذا علاقے اورنمازیوں کی سہولت کے حساب سےوقت مستحب کی رعایت رکھتےہوئے اور کثرت ِجماعت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مناسب وقفہ کیاجاسکتاہے اور15،20منٹ کا وقفہ عرف میں کچھ زیادہ وفقہ نہیں ہے، لہذا جہاں ضرورت ہواس قدر وقفہ کرنے کی ہماری نظرمیں شرعاً گنجائش ہوگی ،گو کہ مستحب اوراوفق بالسنة ہوناپھر بھی کم از کم دقفہ کرنا رہے گا۔

اورقدر رکعتین اوراس سے زائد  وفقے کی کراہت والی فقہی عبارات کو بلاعذر تاخیرپرمحمول کیاجائے گااورافطارایک شرعی عذرہے،واللہ اعلم ۔

تاخیر ِمغرب کی تفصیلات ودرجات کچھ  اس طرح بنتے ہیں :

ایک درجہ یہ ہے کہ اذان کے بعد دور کعت سے کم تاخیر ہو یہ بلاکراہت جائز ہے ۔

دوسرا یہ کہ دورکعتوں کے برابر یا اس سے زیادہ مگر ستاروں کے ظاہرہونے سے پہلے تک تأخیرہو یہ مباح مگر خلاف اولیٰ ہے،اورعذر کے وقت خلاف اولی بھی نہیں اورافطارایک عذر ہے ۔

اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اس قدرتاخیر کی جائے کہ ستارے ظاہر ہوجائیں ایسی تاخیر مکروہ تحریمی ہےالایہ کہ کوئی شدیدشرعی عذر ہو۔

حوالہ جات
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 6 / ص 305)
قالت هكذا صنع رسول الله والآخر أبو موسى قال الطيبي الأول عمل بالعزيمة والسنة والثاني بالرخصة
اه وهذا إنما يصح لو كان الاختلاف في الفعل فقط أما إذا كان الخلاف قوليا فيحمل على أن ابن مسعود
اختار المبالغة في التعجيل وأبو موسى اختار عدم المبالغة فيه وإلا فالرخصة متفق عليها عند الكل
والأحسن أن يحمل عمل ابن مسعود على السنة وعمل أبي موسى على بيان الجواز كا سبق من عمل عمر
وعثمان رضي الله عنهم أجمعين وأما قول ابن حجر وكان عذر أبي موسى أنه لم يبلغه فعل النبي فعذر بارد
مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح - (ج 2 / ص 644)
قال النووي في شرح المسلم : إن تعجيل صلاة المغرب عقيب غروب الشمس مجمع عليه. قال : وقد حكي
عن الشيعة فيه شيء لا التفات إليه ، ولا أصل له. وأما الأحاديث الواردة في تأخير المغرب إلى قرب غروب
الشفق فكانت لبيان آخر الوقت ؛ لأنها كانت جوابا للسائل عن الوقت ، وأحاديث التعجيل عامتها إخبار
عن عادة رسول الله {صلى الله عليه وسلم} المتكررة التي واظب عليها إلا لعذر فالاعتماد عليها. (رواه أبوداود)
رد المحتار - (ج3 / ص 141)
وَأَنَّ مَا فِي الْقُنْيَةِ مِنْ اسْتِثْنَاءِ التَّأْخِيرِ الْقَلِيلِ مَحْمُولٌ عَلَى مَا دُونَ الرَّكْعَتَيْنِ ، وَأَنَّ الزَّائِدَ عَلَى الْقَلِيلِ إلَى اشْتِبَاكِ
النُّجُومِ مَكْرُوهٌ تَنْزِيهًا ، وَمَا بَعْدَهُ تَحْرِيمًا إلَّا بِعُذْرٍ كَمَا مَرَّ قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ : وَاَلَّذِي اقْتَضَتْهُ الْأَخْبَارُ كَرَاهَةُ
التَّأْخِيرِ إلَى ظُهُورِ النَّجْمِ وَمَا قَبْلَهُ مَسْكُوتٌ عَنْهُ ، فَهُوَ عَلَى الْإِبَاحَةِ وَإِنْ كَانَ الْمُسْتَحَبُّ التَّعْجِيلَونحوه ما
قدمناه عن الحلية وما في النهر من أن ما في الحلية مبني على خلاف الأصح : أي المذكور في المبتغى بقوله يكره تأخير المغرب في رواية .
وفي أخرى : لا ، ما لم يغب الشفق .
والأصح الأول إلا لعذر ا هـ فيه نظر ؛ لأن الظاهر أن المراد بالأصح التأخير إلى ظهور النجم أو إلى غيبوبة الشفق فلا ينافي أنه إلى ما قبل ذلك مكروه تنزيها لترك المستحب وهو التعجيل تأمل .
"حاشیہ طحطاوی" میں ہے:
'' (قوله: إلی اشتباک النجوم) ظاهره أنها بقدر رکعتین لایکره مع أنه یکره أخذاً من قولهم بکراهة رکعتین قبلها۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما هو الأقل من قدرهما توفیقاً بین کلام الأصحاب… واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروه تنزیهاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً"۔ (حاشیہ طحطاوی ج:۱، ص:۱۷۸، ط:قدیمی)۔
عَنْ ‏‏أَبِي هُرَيْرَةَ ‏‏قَالَ :‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏: ‏قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :‏ ‏أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا .أخرجه الترمذي (700) ، وأحمد (2/329) . وقال الترمذي : ‏هَذَا ‏حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ !
وفی فتح القدير لكمال بن الهمام:(1 / 429)
( و ) يستحب ( تعجيل المغرب ) لأن تأخيرها مكروه لما فيه من التشبه باليهودوقال عليه الصلاة والسلام { لا تزال أمتي بخير ما عجلوا المغرب وأخروا العشاء }…… ( قوله ويستحب تعجيل المغرب ) هو بأن لا يفصل بين الأذان والإقامة إلا بجلسة خفيفة أو سكتة على الخلاف الذي سيأتي : وتأخيرها لصلاة ركعتين مكروه.
وذکر عن ابن عمر أنہ أخر المغرب حتی بدی نجم فأعتق رقبۃ وہو یتقضی کراہۃ تأخیرہا إلی ظہور النجم، وفي القنیۃ: یکرہ تأخیر المغرب عند محمدؒ في روایتہ عن أبي حنیفۃ، ولا یکرہ في روایۃ الحسن عنہ ما لم یغب الشفق، والأصح أنہ یکرہ إلا من عذر کالسفر والکون علی الأکل ونحوہما أو یکون التأخیر قلیلا، وفي التأخیر بتطویل القراء ۃ خلاف، والذي اقتضتہ الأخبار کراہۃ التأخیر إلی ظہور النجوم، وما قبلہ مسکوت عنہ فہو علی الإباحۃ، وإن کان المستحب التعجیل۔ (حلبی کبیري، کتاب الصلاۃ، الشرط الخامس، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ص: ۲۳۴)وکذا في النہرالفائق، کتاب الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۱۶۴، وکذا في حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، مکتبہ دارالکتاب دیوبند ص: ۱۸۳، وکذا في فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۲۳۰، کوئٹہ ۱/ ۲۰۰ ۔
في الدرالمختار: والمستحب -إلی قولہ- وتعجیل مغرب مطلقا، وتأخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیھا۔ وفي ردالمحتار: أفاد أن المراد بالتعجیل أن لایفصل بین الأذان والإقامۃ بغیرجلسۃ أوسکتۃ علی الخلاف، وأن ما في القنیۃ من استثناء التاخیرالقلیل محمول علی ما دون الرکعتین، وأن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیھا، وبعدہ تحریما إلا بعذر کما مر۔ قال في شرح المنیۃ: والذي اقتضتہ الاخبار کراھۃ التاخیر إلی ظھور النجوم، وماقبلہ مسکوت عنہ، فھوعلی الإباحۃ، وإن کان المستحب التعجیل۔ اھ

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ     

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

28/7/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب