021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دیہات میں نماز جمعہ کا قیام
72239نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام کلی سمیزئی (پشین) میں نماز جمعہ کے بارے میں۔

بستی ہذا میں 13 مساجد ہیں، ہر امام خود مختار نہیں ہے۔ تین قصائی کی دکانیں ہیں، جن میں چھوٹا گوشت (بکرا اور دنبہ) میسر نہیں ہے۔ کل 65 دکانیں ہیں جن میں میڈیکل سٹور، پرچون سٹور اور میناری کپڑوں کی دکانیں شامل ہیں، کچھ متصل اور کچھ متفرق ہیں، ان تمام دکانوں سے مکمل طور پر ضروریات زندگی پوری نہیں ہو سکتی۔ ایک مڈل، دو پرائمری، ایک گرلز سکول ہیں۔ ایک ٹال (جس میں گاڈر اور سیمنٹ وغیرہ ہیں) اور ایک ڈسپنسری ہسپتال ہے، لیکن علاج ومعالجہ اور ایمرجنسی حادثے کی صورت میں بستی ہذا کے لوگ پشین بازار جاتے ہیں جو کہ تقریبا بستی ہذا سے 28 کلو میٹر دور واقع ہے۔ بستی ہذا میں نہ حاکم، نہ لیویز تھانہ اور نہ ہی پولیس کی کوئی چوکی ہے، بستی کے لوگ متنازعہ صورت میں رپورٹ درج کرنے کے لیےحرمزئی جانا پڑتا ہے جو کہ  بستی سے تقریباً 10 یا 12 کلو میٹر دور ہے۔ گاؤں میں ایکسچینج، ریلوے اسٹیشن، بجلی گریڈ، بینک نادرا دفتر، حمام، مسافر خانہ، فوٹو گرافر، ڈاک خانہ، رنگ ریز کی دوکان، دھوبی، شو روم، پٹواری، اسلحہ کی دوکان، عرائض نویس، گھڑی ساز، پراپرٹی ڈیلر، کمپیوٹر کانٹا، اینٹ بھٹی، عطار، طبیب، الیکٹرونک کی دوکان، موٹر سائیکل مکینک، آٹوز کی دوکان، قالین اور کارپیٹ کی دوکان، چادر فرنیچر کارخانہ و دیگر اسباب، شیشہ بنانے والے دوکان، گائے اور بکری کی منڈی (گنج)، لوہار کی دوکان، کتب خانہ، جیولرز کی دوکان، گندم پسانے والا، آئرن ورکس، تیار شدہ گیٹ، ارہ مشین،صرافی کی دوکان۔اس گاؤں میں تمام مذکورہ اشیاء دستیاب نہیں ہو سکتے۔ لوگ اس علاقے کو کلی سمیزئی کے نام سے پکارتے ہیں، شہر نہیں کہتے۔

اب سوالات یہ ہیں:

  1. مذکورہ تفصیل کی روشنی میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ کلی سمیزئی میں نماز جمعہ و عیدین واجب ہے یا نہیں؟
  2. مذکورہ گاؤں قریہ کبیرہ ہے یا نہیں۔
  3. بعض مفتیان کرام اس گاؤں میں نماز جمعہ کے جواز کے لیےاکبر المساجد کے قول سے استدلال پیش کرتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے یا  غلط؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. نماز جمعہ و عیدین کے قیام کے لیے بنیادی شرط "مصر جامع" کا ہونا ہے، جو کہ حدیث شریف سے ثابت ہے۔ باقی جتنی بھی تفصیلات ذکر کی جاتی ہیں وہ اسی تناظر میں ہوتی ہیں کہ کوئی علاقہ یا  آبادی "مصر جامع"ہے یا نہیں (یہی تفصیل اکبر المساجد کے بارے میں ہے کہ اکبر المساجد بذات خود کوئی چیز نہیں، بلکہ اکبر المساجد کا قول بھی "مصر جامع" ہی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کیا گیا ہے کہ آبادی اتنی زیادہ ہوکہ وہاں جمعہ پڑھنے والے افراد کی تعداد اتنی ہو کہ اس علاقے کی سب سے بڑی مسجد بھی ان کے لیے ناکافی ہو، اس سے شہر کے لیے دیگر ذکر کردہ شرائط کی نفی لازم نہیں آتی، جن میں ذکر ہے کہ وہاں سے تمام ضروریات زندگی پوری ہوتی ہوں، کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی صحرا یا جنگل میں کوئی اتنی بڑی مسجد بنا دے تب بھی جمعہ جائز نہیں)۔
  2. رہی یہ بات کہ مصر جامع کا مصداق کیا ہے، تو اس حوالے سے سب سے عمدہ تفصیل علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فیض الباری میں لکھی ہے کہ قریہ اور مصر عرفی اشیاء میں سے ہیں، ان کو منضبط نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے فقہاء نے مصر کی تعریف عرف پر چھوڑی ہے[حوالہ ذیل میں درج ہے]۔
  3. جہاں تک عرف کی بات ہے تو مقامی لوگوں کے عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے، لیکن اس مسئلے میں چونکہ مقامی افراد بھی کسی رائے پر متفق نہیں ہیں (نیز استفتاء کے ساتھ بھیجی گئی تحریر اور مقامی لوگوں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے، دونوں جانب سے کافی سارے فتاویٰ لکھے اور جمع کیے گئے ہیں)۔
  4. اس مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جمعہ وعیدین کی فضیلت، ثواب اور برکات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو مسائل اور روکاوٹیں ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
  5. ہماری معلومات کے مطابق چونکہ اس علاقے کے لوگوں نے اس سے پہلے بھی دارالافتاء جامعۃ الرشید سمیت مختلف مدارس سے فتاویٰ حاصل کیے ہیں اور کسی ایک رائے پر اتفاق نہیں ہو رہا اس لیے:
  6.  مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں اس مسئلے کا حل دو طرح سے ہو سکتا ہے:
  1. وہاں کے مقامی قبائلی معتبرین اور علماء کے دونوں فریق (قائلین جواز اور قائلین عدم جواز) مل کر ایک کمیٹی قائم کریں، جو علاقے کا جائزہ لے کر مذکورہ علاقے میں جن بنیادی ضروریات کی کمی کی نشان دہی کرے، ان کو پورا کیا جائے، اس کے بعد اتفاق رائے سے نماز جمعہ شروع کریں۔
  2. اس علاقے سے قریب تر علاقے سے ایسے علماء کرام اور سر کردہ شخصیات کو بلا کر ان کی کمیٹی بنائی جائے جو اس علاقے کے حالات سے بھی واقف ہوں۔ ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں اور ان کے فیصلے پر عمل کریں۔
حوالہ جات
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 301)
5719 - عن معمر، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع».
شرح مشكل الآثار (3/ 188)
وهو ما قد حدثنا إبراهيم بن مرزوق قال: حدثنا أبو الوليد الطيالسي قال: حدثنا شعبة عن زبيد الإيامي قال: سمعت سعد بن عبيدة، عن أبي عبد الرحمن عن علي عليه السلام قال: " لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر من الأمصار "وما قد حدثنا إبراهيم، قال: حدثنا وهب بن جرير قال: حدثنا شعبة عن زبيد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبد الرحمن عن علي قال: " لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع " قال أبو جعفر: فكان أهل العوالي الذين ليسوا في مصر من الأمصار لهم التخلف عن الجمعات , ومن كان له التخلف عن الجمعات كان له التخلف عن الجماعات سواها في صلوات الأعياد ومما سواها , وكانوا إذا حضروا الأمصار لصلوات الأعياد كانوا بذلك في موضع على أهله حضور تلك الصلاة، يعني: صلاة الجمعة وما سواها من صلوات الأعياد، فأعلمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بما في هذين الحديثين أنهم ليس عليهم أن يقيموا بمكانهم الذي حضروه لصلاة العيد حتى يدخل عليهم وقت الجمعة وهم به , فتجب عليهم الجمعة كما تجب على أهل ذلك المكان ; لأنه مصر من الأمصار , وجعل لهم أن يقيموا به اختيارا حتى يصلوا فيه الجمعة أو ينصرفوا عنه إلى أماكنهم , ويتركون الإقامة للجمعة , فيكون رجوعهم إلى أماكنهم رجوعا إلى أماكن لا جمعة على أهلها...الخ
فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 423)
واعلم أن القرية والمصر من الأشياء العرفية التي لا تكاد تنضبط بحال وإن نص، ولذا ترك الفقهاء تعريف المصر على العرف كما ذكره في «البدائع» (1)، وإنما توجهوا إلى تحديد المصر الجامع، فهذه الحدود كلها بعد كونها مصرا. فإن المصر الجامع أخص من مطلق المصر، فقد يتحقق المصر ولا يكون جامعا. ورأيت في عبارة المتقدمين أنهم إذا ذكروا الاختلاف في حدود المصر يجعلونه في الجامع، ويقولون: اختلفوا في المصر الجامع الخ، فتنبت منه أنهم لا يعنون به تعريف مطلق المصر، والناس لما لم يدركوا أمرهم طعنوا في تلك الحدود.
](1) عن سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، كذا في البدائع. وبالجملة الحدود كلها رسوم على اصطلاح أهل العقول فهي إذن بالعوارض، وتلك تتبدل بحسب الأدوار والأعصار، فلزم أن يختلف تعريف المصر أيضا، وليس من قبيل الحدود المنطقية لتطرد وتنعكس في الأزمان كلها.[
فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 424)
وأولى الحدود ما روي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى: كل بلدة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق «وترجمته باندى»، ووال ينصف المظلوم من ظالمه، وعالم يرجع إليه في الحوادث. وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى وذكره أصحاب المتون: أنه كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود، وهذا الحد ناظر إلى ما في «الدر المختار» من كتاب القضاء أن المصر شرط لنفاذ القضاء في ظاهر الرواية، فالقضاة لا ينصبون إلا في المصر عندنا، ولذا عرف به أصحاب المتون.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

29/07/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب