021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا میکے میں رہنا
72362نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

میری شادی کو سات سال ہونے والے ہیں، میرے شوہر سعودی عرب میں ہوتے ہیں، ان چھ سات سالوں میں،  میں صرف دو دفعہ سعودی عرب گئی اور چھ مہینے رہ کر پاکستان واپس آجاتی۔ درمیان میں شوہر بھی ایک یا دو مہینے کے لیے آجاتے تھے۔ شادی کے وقت بھی صرف ایک مہینہ کے لیے آئے تھے۔ اس سات سال کے عرصے میں گھر میں ہمیشہ لڑائی جھگڑا رہتا تھا اور سب نے مل کر مجھے قصور وار ٹھہرایا یہاں تک کہ ایک لڑائی میں نوبت مار پیٹ تک آگئی، میری دو نندوں اور ساس نے مجھے مارا یہاں تک کہ میرے منہ سے خون بھی نکلنے لگا، پھر میرے گھر والے آئے اور مجھے اپنے گھر لے گئے، پھر میرے شوہر آئے اور مجھے منا کر اپنے گھر لے کر گئے۔ اکثر اوقات لڑائی میں ساس اور نندیں گالم گلوچ کرتی تھیں۔ اب کچھ عرصہ پہلے پھر سے لڑائی ہوئی، میری ساس نے مجھ پر یہ الزام لگایا کہ میں نہیں چاہتی کہ میری نند کی اولاد ہو اس لیے میں نے انہیں ڈاکٹر کا پتہ نہیں بتایااور پھر دیور نے بھی برا بھلا کہا: "کالےمنہ والی" اور میں اپنے گھر اگئی۔ اپنے گھر پر آئے ہوئے مجھے چھ مہینے ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے تیسرا بیٹا دیا جو میرے ماں باپ کے گھر میں ہوا۔ اسی دوران وہ مجھے لینے بھی آتے رہے، شوہر نے فون کر کے کہا کہ واپس چلی جاؤ لیکن میں نہیں گئی۔

میرا صرف ایک مطالبہ ہے کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، یا تو وہ پاکستان آجائے یا مجھے اپنے پاس رکھ لے۔ میں بھی انسان ہوں میری بھی خواہشات ہیں۔ لیکن وہ ہمیں ساتھ نہیں رکھتے، انہیں لگتا ہے کہ اگر میں اپنی بیوی یا بچوں کو ساتھ لے جاؤں گا تو یہ میرے ماں باپ کے ساتھ زیادتی ہوگی کہ میرے بچے ان کے پاس نہیں ہوں گے اور وہ میرے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میں نے انہیں صرف اتناکہا ہے کہ میں اپنے شوہر کے بغیر اس گھر میں نہیں جاؤں گی۔ کیا میرا یہ مطالبہ غلط ہے؟ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اس میں گنہگار کون ہو رہا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. جس طرح شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق ہیں، اسی طرح بیوی کے ذمہ بھی شوہر کے بہت سارے حقوق ہیں۔ ان حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۔ نیز بیوی پر شوہر کی اطاعت جائز کاموں میں واجب ہوتی ہے، اس لیے اگر شوہر گھر سے باہر جانے سے منع کر رہا ہے اور اپنے گھر میں رہنے کا حکم دے رہا ہے، تو بیوی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کے گھر میں قیام کرے۔ بیوی اگر شوہر کی اجازت کے بغیر میکے میں رہے گی تو شوہر پر اس کا نان ونفقہ (خرچہ) بھی واجب نہیں۔
  2. میاں بیوی کے درمیان ضابطے کا نہیں رابطے کا تعلق ہوتا ہے، بہت سارے کام وہ ہوتے ہیں جو ضابطے کی رو سے تو لازم نہیں ہوتے مگر اخلاقی تقاضوں کی رو سے ان کی انجام دہی ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے حسن معاشرت کا تقاضا یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں، ان کا احترام کریں اور ان کی خدمت کریں، تاکہ ان کے درمیان اچھا تعلق قائم رہے اور کسی قسم کی کشیدگی پیدا نہ ہو۔
  3. نیز ایسی صورت میں عورت کو چاہیے کہ صبر اور تحمل سے کام لے، اللہ کی رضا اور شوہر کی خوشی کی خاطر ساس وغیرہ کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے۔ حکمت اور حسن تدبیر کے ذریعے سسرال والوں کا دل جیتنے کی کوشش کرے تاکہ ان کو شکایت اور طعنہ زنی کا موقع نہ ملے۔
  4. لیکن اگر عورت یہ تکالیف برداشت نہیں کر سکتی تو شریعت کی رو سے اس کے لیے جائز ہے کہ وہ شوہر سے یہ مطالبہ کر ے کہ شوہر ان کو اپنے پاس (جہاں ان کی ڈیوٹی ہے/کام کرتے ہیں) رکھ لے یا یہاں ان کے لیے الگ رہائش کا انتظام کرے تاکہ روز روز کے جھگڑوں سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ "جو کام شرعاً واجب ہو اور ماں باپ اس سے منع کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔ مثلاً کسی شخص کے پاس مالی وسعت اس قدر کم ہے کہ اگر ماں باپ کی خدمت کرے تو بیوی بچوں کو تکلیف ہونے کا خطرہ ہو تو اس شخص کے لیے جائز نہیں کہ بیوی بچوں کو تکلیف دے اور ماں باپ پر خرچ کرے۔ اسی طرح بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے علیحدہ رہائش کا بندوبست کرے، بیوی اگر یہ مطالبہ کرے تو شوہر پر واجب ہے کہ وہ اس کے لیے رہائش کا علیحدہ انتظام کرے، اس کی طرف سے مطالبہ کے باوجود الگ رہائش کا انتظام نہ کرنا شوہر کے لیے جائز نہیں، اگرچہ ماں باپ علیحدہ کرنے پر راضی نہ ہوں۔" (تسہیل بہشتی زیور، جلد دوم، ص 316، کتاب گھر ناظم آباد)۔ لیکن یہ واضح رہے کہ الگ رہائش سے مراد فقہی عبارات میں ایک ایسے کمرے کو لیا جاتا ہے جس کے ساتھ الگ بیت الخلاء اور کچن ہو اور بیوی اس کو تالا لگا کر چابی اپنے پاس رکھ سکے، باقی یہ کمرہ بیوی کے والدین کے پاس یا شوہر کے والدین کے پاس ہوگا اس کے بارے میں فیصلے کا اختیار شرعاً شوہر کو حاصل ہے۔
حوالہ جات
{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (34) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا} [النساء: 34، 35]
السنن الكبرى للنسائي (8/ 253)
9102 - أخبرنا محمد بن معاوية بن مالج قال: حدثنا خلف وهو ابن خليفة، عن حفص ابن أخي أنس بن مالك، عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح لبشر أن يسجد لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها»
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (4/ 306)
7638 - وعن ابن عباس «أن امرأة من خثعم أتت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقالت: يا رسول الله أخبرني ما حق الزوج على الزوجة، فإني امرأة أيم، فإن استطعت وإلا جلست أيما؟ قال: " فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر بعير أن لا تمنعه نفسها ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعا إلا بإذنه، فإن فعلت جاعت وعطشت، ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه، فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع ". قالت: لا جرم لا أتزوج أبدا».
الفتاوى الهندية (1/ 556)
تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز وإن أسكنها في منزل ليس معها أحد فشكت إلى القاضي أن الزوج يضر بها، ويؤذيها وسألت القاضي أن يأمره أن يسكنها بين قوم صالحين يعرفون إحسانه وإساءته، فإن علم القاضي أن الأمر كما قالت زجره عن ذلك، ومنعه عن التعدي، وإن لم يعلم ينظر إن كان جيران هذه الدار قوما صالحين أقرها هناك، ولكن يسأل الجيران عن صنعه، فإن ذكروا مثل الذي ذكرت زجره عن ذلك ومنعه عن التعدي في حقها، وإن ذكروا أنه لا يؤذيها فالقاضي يتركها ثمة، وإن لم يكن في جواره من يوثق به، أو كانوا يميلون إلى الزوج فالقاضي يأمر الزوج أن يسكنها في قوم صالحين، ويسأل عن ذلك، ويبني الأمر على خبرهم كذا في المحيط.
المبسوط للسرخسي (5/ 186)
(قال:) وإذا تغيبت المرأة عن زوجها، أو أبت أن تتحول معه إلى منزله، أو إلى حيث يريد من البلدان وقد أوفاها مهرها فلا نفقة لها؛ لأنها ناشزة ولا نفقة للناشزة فإن الله تعالى أمر في حق الناشزة بمنع حظها في الصحبة بقوله تعالى {واهجروهن في المضاجع} [النساء: 34] فذلك دليل على أنه تمنع كفايتها في النفقة بطريق الأولى؛ لأن الحظ في الصحبة لهما وفي النفقة لها خاصة، ولأنها إنما تستوجب النفقة بتسليمها نفسها إلى الزوج وتفريغها نفسها لمصالحه، فإذا امتنعت من ذلك صارت ظالمة وقد فوتت ما كان يوجب النفقة لها باعتباره فلا نفقة لها
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 145)
(و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة؛ و) لها (زيارة أهلها بلا إذنه ما لم تقبضه) أي المعجل، فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

29/07/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب