021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق بائن اور تعلیق طلاق کے بعد طلاق مغلظہ کا حکم
72434طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

چند ماہ پہلے میں نے اپنی دو بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں،ان تین طلاقوں سے پہلے بھی میں نے ایک دو مواقع پر کچھ الفاظ بولے تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہے

1۔ان تین طلاقوں سے تقریباً دس بارہ ماہ پہلے اپنی بیوی سے لڑائی ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ خاتون مزید مجھ پر میری بہن کی طرح ہے اور نیت طلاق کی تھی،پھر میں سفر پر گیا اور تین چار ماہ گزرگئے اور ہم نے خاموشی اختیار کی،جبکہ لوگ طلاق واقع ہونے کا کہہ رہے تھے۔

2۔اس کے بعد ہمارا ایک عزیر قتل کیا گیا اور میں نےکہا کہ اگر اس قاتل کو میں نے نہیں مارا تو میری دونوں بیویوں کو طلاق،جبکہ نہ میں نے قاتل کو مارا ہے،نہ مارسکتا ہوں اور نہ ماروں گا،یہ بھی مذکورہ بالا تین طلاقوں کے وقوع سے کئی ماہ یعنی تین سے پانچ ماہ پہلے کا واقعہ ہے،اب درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں

1۔کیا لڑائی کے دوران مجھ پر میری بہن کی طرح ہے کے الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی،جبکہ ہمارے عرف میں لوگ اسے طلاق سمجھتے ہیں؟اگر واقع ہوگئی تو کیا یہ طلاق کئی ماہ بعد دی جانے والی تین طلاقوں کے لیے بند بن سکتی ہے،جبکہ ان دونوں کے درمیان کئی ماہ گزرے ہیں،تاکہ ہم نکاح کرلیں۔

2۔میں نے جو قاتل کو مارنے کا کہا تھا،نہ مارا ہے،نہ مارسکتا ہوں اور اقرارکیا کہ نہ ماروں گا تو کیا اس سے طلاق واقع ہوکر ان تین طلاقوں کے لیے بند بن سکتی ہے،کیونکہ اگر یہ واقع ہوگئی ہو تو ہم تغلیظ سے بچ جائیں گے،واضح رہے کہ عدم قتل پر معلق کی گئی طلاق اور اب دی جانے والی تین طلاقوں کے درمیان بھی کئی ماہ گزرچکے ہیں،اگر ماں بہن والے الفاظ یا قتل نہ کرنے پر معلق کی گئی طلاقیں واقع ہوچکی ہوں تو یہ تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی اور ہم باہمی رضامندی سے نکاح کرسکیں گے۔

تنقیح :سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ تین طلاقوں اور سابقہ طلاق کی دونوں صورتوں کے درمیان عدت کے بقدر فاصلہ ہے،یعنی اگر سابقہ طلاقیں واقع ہوچکی ہیں تو اب کی تین طلاقیں عدت گزرنے کی وجہ سے واقع نہ ہوں گی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق کی ذکر کی گئی دو صورتوں میں سے دوسری صورت جس میں شوہر نے دونوں بیویوں کی طلاق کو قاتل کے نہ مارنے پر معلق کیا ہے ان تین طلاقوں سے مانع نہیں بنی،کیونکہ اس صورت میں جب تک قاتل اور شوہر زندہ ہیں اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ اسے مار ڈالے،اس لیے جب تک یہ دونوں زندہ ہیں یہ والی طلاق واقع نہیں ہوگی،اگرچہ شوہر اسے نہ مارنے کا عزم کرلے،جب دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگا تو اس کی زندگی کے آخری لمحے میں شرط پوری ہوجائے گی اورپھر اس وقت اگر اس کی بیویاں طلاق کا محل ہوں تو  طلاق واقع ہوجائے گی،البتہ پہلی صورت جس میں شوہر نے طلاق کی نیت سے بیوی کو کہا تھا کہ یہ خاتون مجھ پر میری بہن کی طرح ہے  ان تین طلاقوں سے مانع بنی ہے،کیونکہ ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی اور عدت گزرنے کے بعد جب عورت طلاق کا محل نہیں رہی شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں،اس لیے شوہر نے جس بیوی کو یہ الفاظ)یہ خاتون مجھ پر میری بہن کی طرح ہے ( کہے تھے اس پر چند ماہ قبل دی جانے والی تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔

لیکن ان الفاظ)یہ خاتون مجھ پر میری بہن کی طرح ہے (کے بعد تجدید نکاح کے بغیر ان دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا حرام تھا جس کے وہ دونوں مرتکب ہوئے ہیں،اس لیے ان کے ذمے لازم ہے کہ ندامت اور سچے دل سے اپنے اس کبیرہ گناہ پر کثرت سے توبہ و استغفار کریں اور آئندہ کے لیے جب تک نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح نہیں ہوجاتا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں،نئے نکاح کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا،تین کا نہیں۔

نیز طلاق کو شریعت میں مباح کاموں میں سے سب سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے،صرف شدید ضرورت کے وقت اس کی اجازت دی گئی ہے،اس لیے آئندہ کے لیے شوہر پر لازم ہے کہ بات بات پر طلاق کے الفاظ بولنے سے گریز کرے۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(3/ 269):
"(قوله وإن لم أطلقك) ذكرهم إن وإذا هنا بالتبعية وإلا فالمناسب لهما باب التعليق ط عن البحر (قوله لا تطلق بالسكوت إلخ) لأن شرط البر تطليقه إياها في المستقبل، وهو ممن في كل وقت يأتي ما لم يمت أحدهما فيتحقق شرط الحنث وهو عدم التطليق، وهذا عند عدم النية أو دلالة الفور كما يأتي في إذا (قوله حتى يموت أحدهما) أشار به إلى أن موته كموتها وهو الصحيح خلافا لرواية النوادر، بخلاف قوله إن لم أدخل الدار فأنت طالق حيث يقع بموته لا بموتها لأنه بعد موتها يمكنه الدخول فلا يتحقق اليأس بموتها فلا يقع، أما الطلاق فإنه يتحقق اليأس عنه بموتها فتح".
"الدر المختار " (3/ 470):
"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة".
"الفتاوى الهندية" (1/ 507):
"ولو قال لها: أنت مثل أمي أو كأمي ينوي فإن نوى الطلاق وقع بائنا وإن نوى الكرامة أو الظهار فكما نوى هكذا في فتح القدير وإن لم تكن له نية فعلى قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لا يلزمه شيء حملا للفظ على معنى الكرامة كذا في الجامع الصغير والصحيح قوله هكذا في غاية البيان".
الفتاوى الهندية (1/ 435)
" ولو قال: إن دخل فلان بيتي فدخل فلان بإذن الحالف أو بغير إذنه بعلمه أو بغير علمه كان الحالف حانثا في يمينه كذا في فتاوى قاضي خان".
    

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

29/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب