72413 | نکاح کا بیان | نکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں |
سوال
اگر پہلی بیوی نہ مانے پھر بھی آدمی دوسری شادی کر سکتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
دوسری شادی کے لیے شریعت میں پہلی بیوی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ البتہ ایک سے زائد شادیاں کرنے کی صورت میں بیویوں کے درمیان رہائش، نان و نفقہ اور شب باشی (یعنی جتنی راتیں ایک بیوی کے پاس گزارتا ہے اتنی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے گا) میں عدل و انصاف ضروری ہے، اگر عدل و انصاف نہیں کر سکتا ہو تو سخت گنہگار ہوگا۔
حوالہ جات
{ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا} [النساء: 3]
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 202)
ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع. (قوله لا في المجامعة) لأنها تبتنى على النشاط، ولا خلاف فيه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 201)
(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.
ناصر خان مندوخیل
دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی
2/08/1442 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ناصر خان بن نذیر خان | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |