021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوٰۃ کی رقم سے جہیز کا سامان خرید کر دینے کا حکم
71715زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

کیا زکوۃ کے پیسوں سے بہن کو جہیز کا سامان خرید کر دیا جاسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بہن اگر بھائی کے عیال میں سے نہ ہو اور مستحق زکوٰۃ ہو تو زکوٰۃ کے پیسوں سے سامان خرید کر اس کو دیا جاسکتا ہے، لیکن بہن کو زکوٰۃ کے پیسوں سے جہیز کا سامان خرید کر دینے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ وہ بہن واقعتاً زکوٰۃ کی مستحق ہو، یعنی سید بھی نہ ہو اور نصاب کے بقدر مال کی مالک بھی نہ ہو، نیز وہ زکوٰۃ دینے والے بھائی کے عیال میں بھی نہ ہو۔ ایسے مواقع پر عموماً یہ ہوتا ہے کہ اس بہن کے پاس سونا، چاندی اور ضرورت سے زائد دیگر اموال بھی موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ زکوٰۃ کی مستحق نہیں ہوتی، لیکن اگر بہن واقعی زکوٰۃ کی مستحق ہے اور سامان خرید کر بہن کو اس کا مالک بنایا جائے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 246)
وذكر محمد رحمه الله في «الرقيات» أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقدا فيما بينهم، يعني غالب نقد ذلك البلد، ولا ننظر إلى موضع الشراء، ولا إلى موضع المالك وقت حولان الحول؛ لأن هذا مال وجب تقويمه، فيقوم بغالب نقد البلد كما في ضمان المتلفات إلا أنه يعتبر نقد البلد الذي حال الحول فيه على المال؛ لأن الزكاة تصرف إلى فقراء البلدة التي فيها المال، فالتقويم بنقد ذلك البلد أنفع في حق الفقراء من حيث الرواج، فيجب اعتباره.
المبسوط للسرخسي (2/ 203)
(قال): ويجزئه أن يعطي من الواجب جنسا آخر من المكيل والموزون أو العروض أو غير ذلك بقيمته، وهذا عندنا، وقد بيناه.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

2/08/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب