021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈراپ شپنگ کا شرعی حکم
72663خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرا ایک آن لائن سٹور ہے یعنی مختلف مصنوعات آن لائن فروخت کرتا ہوں۔ کچھ مصنوعات کا سٹاک میرے پاس رکھا ہوتا ہے، جبکہ اکثر مصنوعات کی صرف تصاویر لگا کر ان کی قیمت اور کوالٹی وغیرہ کی تفصیل کا اشتہار دیا جاتا ہے اور آرڈر آنے پر گاہک کی مطلوبہ شے فیکٹری سے براہ راست یا ہول سیل مارکیٹ سے خرید کر روانہ کر دیتا ہوں۔ اس طریقہ کار کے متعلق کیا رائے ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. ذکر کردہ طریقہ کار کو ڈراپ شپنگ (dropshipping) کہتے ہیں۔
  2. کاروبار کا یہ طریقہ دو خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے:

(1) اس میں فروخت کی جانے والی چیز (product) فروخت کنندہ (seller) کے ملکیت میں نہیں ہوتی۔ فروخت کنندہ اپنے گاہک (customer) سے خریداری کا آرڈر پہلے وصول کر لیتا ہے، پھر بعد میں کسی کمپنی یا ہول سیلر سے وہ مصنوع خریدتا ہے اور اپنے گاہک  کو بھیج (deliver) دیتا ہے۔ جبکہ شریعت کی رو سے کسی ایسی چیز کی فروختگی جائز نہیں جو اس عقد (contract) کے وقت فروخت کرنے والے شخص کی ملکیت (ownership) میں نہ ہو۔

(2) فروخت کی جانے والی چیز فروخت کنندہ کے حسی یا معنوی قبضہ (possession) میں نہیں آتی، بلکہ متعلقہ ہول سیل ڈیلر یا کمپنی اس مصنوع کو براہ راست گاہک کی طرف روانہ کر دیتی ہے،  جبکہ شریعت کی رو سے کسی ایسی چیز کی فروختگی جائز نہیں جو فروخت کرنے والے کے قبضہ میں نہ ہو۔

لہذا جن مصنوعات کا سٹاک خود اس آن لائن سٹور والے شخص کے پاس موجود ہو اور اس کی ملکیت میں ہو، ان مصنوعات کا آرڈر ملنے پر بیچا جاسکتا ہے۔ مگر جو مصنوعات ان کے پاس نہ ہوں اور وہ پہلے فروختگی کا حتمی معاملہ (confirm order) کر لیتا ہے، پھر بعد میں مارکیٹ سے خریدتا ہے، تو یہ جائز نہیں۔

ان معاملات کو درست کرنے کے لیے اس میں کچھ ترامیم کر کے اس کو شرعی احکام کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ ذیل میں متبادل کے طور پر دو طریقے ذکر کیے جاتے ہیں:

  1. کسٹمر سے آرڈر لیتے وقت حتمی (confirm) معاملہ نہ کیا جائے بلکہ فروختگی کا وعدہ کیا جائے، اس طرح کہ کسٹمر کو بتا دیا جائے کہ یہ چیز فی الحال میرے پاس سٹاک میں موجود نہیں ہے، میں آپ کے لیے مہیا (arrange) کر لوں گا۔ پھر وہی چیز متعلقہ کمپنی سے خرید کر قبضہ کر لیا جائے اور پھر کسٹمر سے دوبارہ کنفرم معاملہ کیا جائے۔ اگر کسٹمر اس پر راضی ہوا تو وہ اپنا آرڈر بک کروا لے گا۔
  2. جو مصنوعات اپنے پاس نہ ہوں، ان کو اپنے طور پر(behalf) پر نہ بیچا جائے، بلکہ متعلقہ ہول سیلر یا کمپنی کا بروکر اور ایجنٹ بن کر بیچاجائے۔ نیز وہاں آن لائن سٹور  پر بھی یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ چیز فلاں کمپنی کی طرف سے آپ کو بیچی جارہی ہے (یعنی ویب سائٹ کی ڈسکرپشن میں اس کی وضاحت ضروری ہے) اور پھر اپنے اس کام کی تنخواہ یا فیس وصول کی جائے۔ بطور بروکر یا کمیشن ایجنٹ کسی ایک یا دونوں پارٹیوں سے معلوم اور متعین رقم وصول کی جا سکتی ہے۔
  1. نیز اس طرح کے معاملات میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے:
  1. جو اشیاء بطور سیمپل یا اشتہار میں دکھائی جاتی ہیں یا ویب سائٹ پر ان کی تفصیل لکھی گئی ہوتی ہے تو فروخت کی جانی والی دیگر چیزیں بھی ان صفات (qualities) کے مطابق ہونی چاہیے۔
  2. جو مصنوعات فروخت کیے جائیں ان کی خرید وفرخت شریعت اور قانون کی رو سے  منع نہ ہو، یعنی ان کی اجازت ہو۔
  3. قیمتیں اور کمیشن سب طے اور واضح ہو، کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔
  4. اس حوالے سے دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی سے ایک اور فتویٰ (نمبر 71209/60) بھی جاری ہوا ہے، آپ دارالافتاء کی ویب سائٹ (almuftionline.com) پر ملاحظہ کر سکتے ہیں[
حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 311)
20499 - حدثنا أبو بكر قال: حدثنا هشيم، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام، قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يأتيني ويسألني البيع ليس عندي، أبيعه منه، أبتاعه له من السوق؟ قال: فقال: «لا تبع ما ليس عندك».
سنن أبي داود (3/ 284)
 عن عائشة رضي الله عنها، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «الخراج بالضمان»
مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم (ص: 267)
عن عتاب بن أسيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه إلى أهل مكة، فقال: «انطلق إلى أهل مكة انههم عن أربع خصال: عن بيع ما لم يقبضوا، وعن ربح ما لم يضمنوا، وعن شرطين في بيع، وعن بيع وشرط»
المبسوط للسرخسي (13/ 8)
المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا...وحجتنا ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى عن بيع ما لم يقبض الخ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 180)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 146)
(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم» ، ولو باع المغصوب فضمنه المالك قيمته نفذ بيعه؛ لأن سبب الملك قد تقدم فتبين أنه باع ملك نفسه، وههنا تأخر سبب الملك فيكون بائعا ما ليس عنده فدخل تحت النهي، والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن «حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال لا تبع ما ليس عندك» ، ولأن بيع ما ليس عنده بطريق الأصالة عن نفسه تمليك ما لا يملكه بطريق الأصالة، وأنه محال. وهو الشرط فيما يبيعه بطريق الأصالة عن نفسه فأما ما يبيعه بطريق النيابة عن غيره ينظر إن كان البائع وكيلا وكفيلا فيكون المبيع مملوكا للبائع ليس بشرط، وإن كان فضوليا فليس بشرط للانعقاد عندنا بل هو من شرائط النفاذ فإن بيع الفضولي عندنا منعقد موقوف على إجازة المالك، فإن أجاز نفذ، وإن رد بطل. . .الخ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 156)
(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة. فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود.
الفتاوى الهندية (3/ 13)
وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض وكل جواب عرفته في المشتري فهو الجواب في الأجرة إذا كانت الأجرة عينا وقد شرط تعجيلها لا يجوز بيعها قبل القبض وكذا بدل الصلح عن الدين إذا كان عينا لا يجوز بيعه قبل القبض.
الفتاوى الهندية (3/ 58)
رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة. ولا يمنع ثبوت الملك في البدلين ولكن يمنع اللزوم كذا في محيط السرخسي ولا يسقط بصريح الإسقاط قبل الرؤية ولا بعدها هكذا في البدائع وله أن يفسخ وإن لم ير عند عامة المشايخ رحمهم الله تعالى وهو الصحيح كذا في الفتاوى الصغرى وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده هكذا في المضمرات. وكما يثبت الخيار في المبيع للمشتري ويثبت للبائع في الثمن إذا كان عينا كذا في فتاوى قاضي خان.
(فقہ البیوع، المجلد الثانی، ص 1137،1138 )
الوعد او المواعدۃ بالبیع لیس بیعاً، ولا یترتب علیہ آثار البیع من نقل ملکیۃ المبیع ولا وجوب الثمن.
 

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

5/08/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب