021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سپلائر سے ہی اپنے گاہک کو مصنوعات کی ڈیلیوری کروانا
72664خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

بعض ہول سیل والے تاجر حضرات سے یہ طے ہے کہ وہ آرڈر آنے پر خود ہی گاہک کو مال روانہ کر دیتے ہیں، آرڈر کی وصولی میرے ذمے ہوتی ہے۔ ان ہول سیل والے تاجر حضرات اس خدمت کے عوض (یعنی مال کو پیک کر کے ڈاک میں روانہ کرنا) ان کو ہول سیل قیمت سے 10 فیصد زیادہ رقم ادا کرتا ہوں، کہ اگر کسی چیز کی قیمت 100 روپے ہے جب وہ اس کو پیک کر کے ڈاک میں روانہ کریں گے تو میں ان کو 110 روپے دیتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. یہ ڈراپ شپنگ کی ہی ایک صورت ہے، اس میں دو خرابیاں پائی جاتی ہیں: (1) اس میں فروختگی کا معاملہ کرتے وقت بیچی جانے والی چیز فروخت کنندہ کی ملکیت میں نہیں ہوتی، جبکہ شریعت کی رو سے کسی ایسی چیز کی فروختگی جائز نہیں جو اس شخص کی ملکیت میں نہ ہو (2) بیچی جانے والی چیز فروخت کنندہ کے قبضہ میں نہیں آتی، بلکہ متعلقہ ہول سیل ڈیلر یا کمپنی اس مصنوع کو براہ راست گاہک کی طرف روانہ کر دیتی ہے،  جبکہ شریعت کی رو سے کسی ایسی چیز کی فروختگی جائز نہیں جو فروخت کرنے والے کے قبضہ میں نہ ہو۔
  2. البتہ اگر گاہک کے ساتھ پہلے صرف فروختگی کا وعدہ کیا جائے، یعنی حتمی معاملہ نہ کیا جائے، متعلقہ کمپنی سے وہ اشیاء خرید کر ان پر خود یا اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے قبضہ کیا جائے، اس کے بعد دوبارہ اس کمپنی کے حوالے کی جائے اور وہ کمپنی اس ڈراپ شپر کی طرف سے (یعنی ڈراپ شپر کے وکیل کی حیثیت سے) وہ چیز کسٹمر کو روانہ کرے، تب یہ معاملہ درست ہوگا۔ اس پر وہ کمپنی یا ہول سیلر اس مصنوع کی قیمت کے علاوہ بھی رقم اس ڈیلیوری کی سروس کے عوض لے سکتا ہے (جیسا کہ آپ انہیں 10 روپے اضافی دے رہے ہیں)۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 180)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله.
الفتاوى الهندية (3/ 13)
وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض وكل جواب عرفته في المشتري فهو الجواب في الأجرة إذا كانت الأجرة عينا وقد شرط تعجيلها لا يجوز بيعها قبل القبض وكذا بدل الصلح عن الدين إذا كان عينا لا يجوز بيعه قبل القبض.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 156)
(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة. فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود.
(فقہ البیوع، المجلد الثانی، ص 1137،1138 )
الوعد او المواعدۃ بالبیع لیس بیعاً، ولا یترتب علیہ آثار البیع من نقل ملکیۃ المبیع ولا وجوب الثمن.
 

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

5/08/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب