021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غلط تقسیم غیر معتبرہے{بعض ورثہ کومیراث دینابعض کوبلاوجہ محروم کرنا}
72686تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

حاجی عطاء محمد مرحوم نے چند ورثہ چھوڑے ،دو بیویاں ،پانچ بیٹےاورآٹھ بیٹیاں،تقسیم کے وقت بیٹوں میں سے چار بالغ اورایک نابالغ تھا،بالغ بیٹوں نے مرحوم کی زمین کو اس  طرح تقسیم کیا کہ مرحوم کی بیویوں اوربیٹیوں کو اس میں سےکچھ حصہ نہیں دیا اوربھائیوں نے اپنے درمیان ترکہ اس طرح تقسیم کیا کہ بڑےبھائی کو زمین کا ایک حصہ اندازے سے دیا گیا اورزمین کا بقیہ حصہ تین بالغ اورایک نابالغ بھائی کو دیا گیا، اسی دوران تین بالغ بھائیوں میں سے ایک نے اس تقسیم سے انکار کیا کہ بڑے بھائی کو اندازے سے حصہ دینا مجھے منظورنہیں ہے،لہذا پیمائش کے طریقے پر تمام بھائیوں کو حصہ دیا جائے،لیکن بڑے بھائی نے اس کی اِس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی مذکورہ تقسیم کو جبراً اس پر مسلط کردیا، پھر بڑے بھائی کے حصے کے علاوہ باقی زمین کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا جس میں سے تین حصے تین بالغ بھائیوں کو دیئے گئے اورایک حصہ نابالغ بھائی کے لیے متعین کیا گیا اوربھائی اس تقسیم کا اقرار بھی کرتے ہیں، اب انیس بیس سال کے بعد نابالغ بھائی (جوکہ اب بالغ ہیں اس)نے یہ دعوی کیاہے کہ میں اس تقسیم پر راضی نہیں ہوں، اس لیے کہ اس تقسیم میں بہنوں اورماؤں کو اپنےحق سےمحروم کیاگیاہے اوربڑے بھائی کو زیادہ حصہ دیا گیا ہے اورمیرا مطالبہ یہ ہے کہ اس مذکورہ تقسیم کو ختم کرکےدوبارہ شرعی طریقے پر تقسیم کی جائے تاکہ تمام ورثاء کو اپنا حق مل جائے ، اپنی جانب سے اصالةً اوروالدہ اوربہنوں کی جانب سے وکالةً میں دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کرتاہوں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ دعوی کرنے والے بھائی کایہ دعوی شرعی اعتبارسے درست ہے یانہیں؟ شریعت مذکورہ تقسیم  کوجائزکہتی ہے یانہیں؟نیز مذکورہ بالاورثاء کے شرعی حصے کیا ہونگے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     واضح رہے کہ والدین کی میراث میں اللہ تعالی نے جیسے بیٹوں کا حصہ رکھا ہے، اسی طرح بیٹیوں اور بیویوں کا حصہ بھی رکھا ہے،حصہ کی مقدار کا فرق  ضرور ہوگامگر حصہ دار ہونے میں سب کو ایک جیسی حیثیت حاصل ہے،جو شخص کسی وارث کی اس حیثیت کو بدلتا ہے، وہ درحقیقت اللہ تعالی کےاس فیصلے کو ناپسند کرتا ہے اور اسے بدلتا ہے اور یہ  بہت بڑا جرم ہے۔ سورۂ نساء میں میراث کے سارے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نےارشاد  فرماتے ہیں:

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِینَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ. وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِینٌ.(۴:۱۳۔۱۴(

’’یہ اللہ کی بتائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی بتائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنہیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

حضرت سلیمان بن موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

«من قطع ميراثا فرضه الله، قطع الله ميراثه من الجنة» سنن سعيد بن منصور (١/ ١١۸)

جس نےاللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی﴿ اپنے وارث کی﴾ میراث کو کاٹ دیااللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کاٹیں گے۔

اس تفصیل سےمعلوم ہوا کہ خواتین کومیراث سے محروم رکھنا سراسر ظلم،ناانصافی، حق تلفی اور الله کے احکام سے کھلی بغاوت ہے ، جو کہ ناجائزاورحرام ہے،لہذا اس سے توبہ اوراستغفار کرنا سابقہ کی معافی تلافی کرنا اورآئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرنا ضروری ہے۔

اس تمہید کے بعد اب آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سوالنامہ میں درج تقسیم شرعی اعتبارسے صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں بعض ورثاء کو حق سےمحروم کیا گیاہے،جیسا کہ مرحوم کی بیویوں اوربیٹوں کو کوئی حق نہیں دیا گیا،جبکہ دیگربعض کوشرعی حصہ کے بجائے اندازے سے دیا گیا ہے جیسا کہ مرحوم کے بڑےبیٹے کودیا گیاہے،لہٰذا مسئولہ صورت میں شرعی تقسیم کا مطالبہ درست ہے،دوبارہ تقسیم میں کسی بھی وارث کو محروم  کرنا یاکسی کو اندازے سے کچھ دیناجائزنہیں، بلکہ شرعی تقسیم کی صحیح صحیح رعایت ضروری ہے۔

حاجی عطاء محمد مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ درج ذیل ہوگا۔بشرطیکہ موت کے وقت ان کےصرف وہی ورثہ ہوں جو سوال میں درج ہیں۔

حقوقِ متعلقہ بالترکہ(کفن دفن کے اخراجات ،قرض ،ثلت تک وصیت اگرکی ہو) کی ادائیگی کے بعد مرحوم عطاء محمدکےمال میں سے ہربیوی کو 6.25 فیصد،ہربیٹے کو 9.7223فیصداورہربیٹی کو 4.8612فیصددیاجائے۔

حوالہ جات
وفی البحر الرائق:
ولو ظھر غبن فاحش فی القسمۃ تفسخ۔ (البحر الرائق، کتاب القسمۃ زکریا ۸/۲۸۳، کوئٹہ ۸/۱۵۶، وکذا فی تبیین الحقائق امدادیہ ملتان ۵/۲۷۳، زکریا ۶/۴۱۹)
وفی الھدایة :
ولو استحق بعض شائع فی الکل تفسخ بالاتفاق لأن باستحقاق جزء شائع ینعدم معنی القسمۃ وھو الإفراز لأنہ یوجب الرجوع بحصتہ فی نصیب الآخر۔ (ھدایہ، کتاب القسمۃ اشرفی دیوبند ۴/۴۲۰-۴۲۱)
قال اللہ تعالی :
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ}.........{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن}    [النساء:11،12]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
 والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

6/8/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب