021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی سے کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو، سے طلاق کا حکم
73026طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے کولہے کے دو جوڑ ایک بیماری کی وجہ سے تبدیل کرنا پڑے اور دو آپریشن ہوئے۔ اس کے بعد میرا ایک رشتےدار سے نکاح ہوا، جو سعودی عرب میں رہتا تھا۔ اپنی بیماری اور آپریشن کا بھی انھیں بتایا تھا۔ نکاح کے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک ہفتہ سعودی عرب رہی پھر پاکستان آگئی۔ اس کے بعد نہ وہ پاکستان آیا اور نہ میں وہاں گئی۔ اس دوران بعض دفعہ ہمارے درمیان ناراضگی بھی ہوتی رہی۔ کبھی کبھی وہ مجھے میری بیماری کا طعنہ بھی دیتا۔ شادی سے تقریباً چھ ماہ بعد اور اب سے تین ماہ قبل ایک دن اس نے غصے میں ٹیلی فون پر کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو، جو چاہو کرو۔ اس کے بعد وہ پاکستان نہیں آیا۔ اب شرعی طور پر میرے لیے کیا حکم ہے؟

تنقیح سوال: سائلہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شوہر نے متعدد بار کہے اور مذاکرۂ طلاق کے دوران بھی کئی بار ایسے الفاظ استعمال کیے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس نے آپ کے لیے "آزاد" کا لفظ استعمال کیا اور لفظ "آزاد" سے طلاق دینے کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے:

"علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ آزاد کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اہلِ فارس کے عرف میں طلاق کے معنٰی میں صریح ہے۔ لیکن ہمارے عرف میں یہ کنائی الفاظ کی اس قسم میں سے ہے جس میں حالتِ غضب میں بھی نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ہاں اگر مذاکرۂ طلاق ہو تو طلا ق واقع ہوتی ہے۔"(التبویب: 362/230)

مذکورہ صورت میں شوہر نے چونکہ مذاکرۂ طلاق کے دوران یہ الفاظ کہے ، لہٰذا ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ اس کے بعد اگر دوبارہ ایسے الفاظ کہے تو ان کا اعتبا ر نہیں۔ عدت کے دوران اسی شوہر سے اور عدت گزرنے کے بعد اس سے یا کسی دوسرے شخص سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: "سرحتك" وهو «رهاء كردم»؛ لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري….. فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح. (ردالمحتار: 299/3)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا….. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: (توقف الأولان): أي ما يصلح ردا وجوابا، وما يصلح سبا وجوابا، ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم، كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا، فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه، ولا يكذبه الظاهر، فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب؛ لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق، فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية، كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق.(ردالمحتار:  301/3)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها، أو يموت عنها، كذا في الهداية، ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها، أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير، ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل، وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز.(الفتاوی الھندیۃ: 1/473)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: ولا يلحق البائنُ البائنَ بأن قال لها: أنت بائن، ثم قال لها: أنت بائن لا يقع، إلا طلقة واحدة بائنة؛ لأنه يمكن جعله خبرا عن الأول، وهو صادق فيه، فلا حاجة إلى جعله إنشاء؛ لأنه اقتضاء ضروري. (الفتاوٰی الھندیۃ: 377/1)

محمدعبداللہ بن عبدالرشید

دارالافتاء، جامعۃ الرشید ،کراچی

21/شعبان المعظم/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب