73142 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
ایک خاتون کا انتقال ہوگیا ہے۔ اُس کے دو لڑکے ہیں، شوہر ہے اور والدین بھی حیات ہیں۔ اُس کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں مرحومہ نے جو کچھ مال و جائیداد اور گھریلو سامان وغیرہ چھوڑا ہے، وہ سب کچھ اِن کا ترکہ ہے۔ میراث کی تقسیم سے قبل اگر مرحومہ کے ذمہ کسی کا قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے گا، اِس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اگر مرحومہ نے کوئی وصیت کی ہو تو اُس وصیت کو ایک تہائی مال میں نافذ کیا جائے گا۔ اِس کے بعد کل مال کے چوبیس حصے کیے جائیں گے، جس میں سے چھ حصے شوہر کو دیے جائیں گے، چار حصے والد کو اور چار حصے والدہ کو دیے جائیں گے اور بقیہ دس حصے دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم کیے جائیں گے۔
ورثہ |
حصے(چوبیس) |
فیصد |
شوہر |
چھ(6)حصے |
25% |
والد |
چار (4) حصے |
16.66% |
والدہ |
چار (4) حصے |
16.66% |
2 بیٹے |
دس (10) حصے |
41.68% |
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها، كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة. وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)، ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته ولو هلك كفنه، فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله، (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)، ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا، فسيان، كما بسطه السيد. (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا، ثم) تقدم (وصيته)، ولو مطلقة على الصحيح، خلافا لما اختاره في الاختيار. (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه، وإنما قدمت في الآية اهتماما؛ لكونها مظنة التفريط، (ثم) رابعا، بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته).(الدر المختار مع رد المحتار: 6/760)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: فالأول الأب، وله ثلاثة أحوال: الفرض المحض، وهو السدس مع الابن أو ابن الابن، وإن سفل. (الفتاوی الھندیۃ: 6/448)
وقال أیضا: فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن.(الفتاوی الھندیۃ: 6/450)
وقال أیضا: الأم ولها ثلاثة أحوال: السدس مع الولد وولد الابن أو اثنين من الإخوة والأخوات من أي جهة كانوا. (الفتاوی الھندیۃ: 6/449)
وقال أیضا: (الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر، ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض، وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار، فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه، وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى، وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين. فأقرب العصبات الابن، ثم ابن الابن، وإن سفل. (الفتاوی الھندیۃ: 6/451)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
23/ شعبان/ 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |