03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی زندگی میں فوت ہونے والی بیٹی کے حصہ وراثت کا حکم
73257میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں،ایک بیٹی والد کی زندگی میں وفات پاگئی تھی،کیا والد کی جائیداد میں سے اس فوت ہونے والی بیٹی کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور اس کی اولاد اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث میں صرف ان ورثا کو حصہ ملتا ہے جو میت کے انتقال کے وقت زندہ ہوں، جن ورثاکا میت سے پہلے انتقال ہوچکا ہو،میراث میں ان کا حصہ نہیں ہوتا،لہذا جو بیٹی والد صاحب سے پہلے وفات پاگئی ہے اس کا والد کی میراث میں کوئی حصہ نہیں بنتا،جب اس مرحومہ کا کوئی حصہ نہیں ہے تو اس کی اولاد کو بھی کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

حوالہ جات

"البحر الرائق " (8/ 577):

قال – رحمهﷲ - (ولا توارث بين الغرقى والحرقى إلا إذا علم ترتيب الموت) أي إذا مات جماعة في الغرق أو الحرق ولا يدرى أيهم مات أولا جعلوا كأنهم ماتوا جميعا فيكون مال كل واحد منهم لورثته ولا يرث بعضهم بعضا إلا إذا عرف ترتيب موتهم فيرث المتأخر من المتقدم وهو قول أبي بكر وعمر وزيد وأحد الروايتين عن علي - رضي ﷲ عنه - وإنما كان كذلك؛ لأن الإرث يبنى على اليقين بسبب الاستحقاق وشرطه وهو حياة الوارث بعد موت المورث ولم يثبت ذلك فلا يرث بالشك".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

26/شوال1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب