021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھانجوں کا ماموؤں سے اپنی مرحومہ والدہ کا حصہ طلب کرنا
73260میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

دوبیٹیوں میں سے ایک بیٹی کو والد نے اپنی جائیداد میں سے ایک مکان دیا،دوسری بیٹی نے مطالبہ کیا کہ مجھے بھی اس مکان کا نصف حصہ دیا جائے،والد نے مکان کی قیمت لگواکر جو1993 میں سکہ رائج الوقت کے مطابق 75000 روپے بنی تھی،اس کی نصف سے بھی زائد رقم یعنی پچاس ہزار روپے اس بیٹی کو دیئے،اب اس بیٹی کی وفات کے بعد اولاد نے مطالبہ کردیا کہ ہماری مرحومہ والدہ کو جائیداد میں سے حصہ نہیں ملا،لہذا 2021 کے مطابق والد کا حصہ ہمیں دیا جائے،کیا اب ان کا یہ مطالبہ درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا ہبہ کے حکم میں ہےاور اس کے حوالے سے تفصیل درج ذیل ہے:

1۔عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو ،چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے۔

2۔بغیر کسی معقول وجہ ترجیح کے، محض نقصان پہنچانے کی غرض سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا ناجائز ہے۔

3۔ اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

4۔ایسی بے دین اولاد کوجسے دینے کی صورت میں غالب گمان ہو کہ وہ اس مال کو ناجائز کاموں میں صرف کرے گی وقتی ضرورت سے زیادہ نہیں دینا چاہیے،بلکہ ایسی صورت میں سارا ان میں تقسیم کرنے کے بجائےاضافی مال دینی کاموں میں خرچ کردینا مستحب ہے۔

واضح رہے کہ چونکہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ پورانہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

یہ بھی واضح ہو کہ زندگی میں کسی وارث کو کچھ مال دے کر یہ کہنے سے کہ اب میراث میں تمہارا کوئی حصہ باقی نہیں رہا،اس وارث کا حصہ میراث میں سے ختم نہیں ہوتا۔

لہذا جو شخص بھی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہے وہ مذکورہ بالا اصولوں کو مدنظر رکھ تقسیم کرے،لیکن اگر کسی نے لاعلمی کی بناء پر ان کا لحاظ رکھے بغیر تقسیم کردی اور قبضہ بھی دے دیا تو وہ تقسیم نافذ ہوجاتی ہے اور اس شخص کے مرنے کے بعد تقسیم شدہ جائیداد میں سے کوئی وارث اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کرسکتا،اس لیے مذکورہ صورت میں مرحومہ بیٹی کی اولاد کا مطالبہ مذکورہ مکان میں درست نہیں،خاص کر جب والد نے ان کی والدہ کو اس وقت کے مطابق اچھا خاصا حصہ دے دیا تھا۔

حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".
"الدر المختار للحصفكي ": (ج 5 / ص 265) :
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".
"البزازیہ علی ھامش الہندیۃ"(۶/237):
"الافضل فی ھبۃ الابن والبنت التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھوالمختار،ولووھب جمیع مالہ من ابنہ جاز ،وھو آثم ،نص علیہ محمد ،ولو خص بعض اولادہ لزیادۃ رشدہ لاباس بہ ،وان کانا سواءلایفعلہ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

26/شوال1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب