021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے کنائی الفاظ "میں نے تمہیں حریت دیدی” میں میاں بیوی کا اختلاف
73228طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میری شادی فروری2016 میں سعودی عرب مقیم ایک لڑکے سے ہوئی تھی، میرا تعلق پاکستان سے ہے، جون 2016 ہی میں ان کی گرفتاری ہوئی، شادی کے بعد صرف 3یا 4مہینے ساتھ رہے تھے، تا حال وہ جیل میں ہے، بقول میرے شوہر کے انکی رہائی ڈھائی سال کے بعد ہوجائیگی، لیکن ابھی 6سال ہوگئے ہیں، انکی رہائی کی کوئ صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ اب تو لگتا ہے انکی رہائی بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے، اور میں اپنے سسرال میں رہتی تھی، سسر اور 3دیور ساتھ رہتے تھے، ساس بھی انتقال کرچکی ہے،سسرال میں میرا ساتھ رہنا مشکل ہو گیا ہے، سسر بات بے بات ڈانتٹے اور اپنا رعب جھاڑتے رہتے ہیں، میری بدنامی کرتے ہیں کہ میں کوئی کام صحیح نہیں کرتی ہوں، اور اتنا بھی کہتے سنا ہے کہ خود تو جیل چلا گیا بیٹا  اور اپنا عذاب میرے سر دے گیا، یعنی ایک طرح سے میں ان پر بوجھ بن گئی ہوں، اب میں اپنی ایک بہن کے پاس رہ رہی ہوں، میرے پاس نان ونفقہ کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے، اقامہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کسی مدرسہ میں پڑھا بھی نہیں سکتی، گھر میں پڑھانے اور کوئی بھی کام کرنے کی کوشش کی وہ بھی نہیں ہوا۔

 اس سب صورت حال کی وجہ سے میں ان سے طلاق کا مطالبہ کرتی تھی، لیکن میرے شوہر کا کہنا ہے کہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا، تم بس میرا انتظار کرو، صبر کرو، ایک نہ ایک دن میری رہائی ہو جائیگی۔ پھر اسی دوران  ایک دن فون یہ بات ہوتی ہے کہ تم آخرچاہتی کیاہو؟ میں نے کہا: آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ میں کیا چاہتی ہوں، یہ میں اس لئے کہتی ہوں کیونکہ میں اس سے پہلے ان سے کئی دفعہ طلاق کا مطالبہ کر چکی تھی، تو کہتے ہیں جو تم چاہتی ہو وہ میں نے کردیا، اور میں نے تمہیں حریه دےدی، لیکن تمہیں مجھ سے بیوی کی حیثیت سے نہ سہی دوستی کی حیثیت سے بات کرنا ہوگی۔ پھر اس کے بعد جب دوبارہ بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ تم جو چاہو کرو، تو میں نے اس دن کہا میں طلاق کے پیپر بنوا رہی ہوں، جواب دیا کہ بنوا لو اور ساتھ میں دھمکی بھی دینے لگے اور کہنے لگے کہ لفظ طلاق بولنے سے ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ گفتگو سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا بقول میرے شوہر کے لفظِ طلاق بولنا ضروری ہے؟ سعودی عرب میں مقیم لوگوں کو جو اقامہ دیا جاتا ہے وہ میرے پاس نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی عدالت میں بھی نہیں جاسکتی۔ برائے مہربانی مذکورہ مسئلہ پہ غور فرماکر میری رہنمائی فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مفتی غیب نہیں جانتا،وہ سوال کےمطابق جواب دیتاہے۔سوال کےسچ یاجھوٹ ہونے کی ذمہ داری سائل پرہوتی ہے ۔اگرسائل غلط بیانی کےذریعہ کوئی فتویٰ حاصل کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ نیز غلط بیانی کر کے فتوی لینے سے کوئی حلال حرام نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی حرام حلال ہوتا ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ طلاق کے معاملے میں شوہر اور بیوی کے درمیان  اختلاف کی صورت میں دیانت اور قضاء کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے۔ قضاءً مرد کا قول اور دیانتاً عورت کا قول معتبر ہوتا ہے۔ قضاءً مرد کا قول معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ عدالت پہنچ جائے اور عورت کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہ ہوں تو قاضی مرد سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا، اگر خاوند جھوٹا ہوا تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا، اور شرعاً یعنی "فیما بینہ وبین اللہ" عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی۔  دیانتاً عورت کا قول معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا پکا یقین ہو تو وہ اپنی ذات کے حق میں اسی پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے لیے خاوند کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں۔

سوال نامہ کے مطابق آپ جن الفاظ کا دعوی کر رہی ہیں، ان سے مذاکرۂ طلاق کے وقت بلا نیت بھی طلاقِ بائن ہوجاتی ہے اور نکاح ختم ہوجاتا ہے، جبکہ آپ کا شوہر ان الفاظ کا انکار کر رہا ہے۔ لہٰذا اگر شوہر عدالت گیا، اور آپ کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں اس نے اپنی بات پر قسم اٹھالی تو عدالت اس کے حق میں فیصلہ کرے گی۔ لیکن اگر آپ کی لکھی ہوئی بات واقعتا سچ ہے تو شوہر کے حق میں فیصلہ ہونے اور نہ ہونے دونوں صورتوں میں آپ پر اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہوئے شوہر سے الگ رہنا اور اسے اپنے اوپر قدرت نہ دینا اور اس کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنا لازم ہوگا۔ علیحدگی کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنے کے باوجود اگر وہ آپ کو زبردستی اپنے پاس رکھے تو سارا گناہ شوہر کو ہوگا، اور آپ عند اللہ معذور سمجھی جائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں جب (آپ کے قول کی روشنی میں) دیانتًا آپ پر طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے تو اگرچہ عدت گزرنے کے بعدآپ کے لیے دیانتًا دوسری جگہ نکاح کی گنجائش ہے، لیکن قضاءً اجازت نہیں ہے یعنی اگر شوہر نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا اور آپ اپنی بات پر گواہ پیش نہ کرسکی تو قسم اٹھانے کے بعد فیصلہ شوہر کے حق میں ہوگا جس سے آپ کے لیے مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ شوہر کو (دوبارہ) مہر یا مال کے بدلے میں دوسری طلاق یا خلع پر راضی کیا جائے تاکہ وہ بعد میں دعویٰ نہ کرسکے۔ اگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور سوال کے مطابق آپ سعودی عرب کی عدالت میں بھی نہیں جاسکتی (تو اگر پاکستان کی کسی عدالت میں خلع کے لیے دعویٰ دائر کرنا ممکن ہو) تو پاکستانی عدالتوں میں رائج جبری خلع کا قانون اگرچہ شرعا غلط اور غیر معتبر ہے، لیکن مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کے قول کی روشنی میں طلاقِ بائن ویسے ہی واقع ہوچکی ہے، اس لیے ایسی صورت میں صرف سرکاری تحفظ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے جبری خلع کی ڈگری لینے کی گنجائش ہے۔ (باستفادۃِ من فتاویٰ دار العلوم دیوبند:9/173، امداد الاحکام: 2/ 675- 615، و  فتاویٰ عثمانی: 3/355)

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 298):
فالحالات ثلاث رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا ولا ( فنحو اخرجي واذهبي وقومي ) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة ( يحتمل ردا ونحو خلية برية حرام بائن ) ومرادفها كبتة بتلة ( يصلح سبا ونحو اعتدي واستبرئي رحمك أنت واحدة أنت حرة اختاري أمرك بيدك سرحتك فارقتك لا يحتمل السب والرد ففي حالة الرضا ) أي غير الغضب والمذاكرة ( تتوقف الأقسام ) الثلاثة تأثيرا ( على نية ) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما، مجتبى.  ( وفي الغضب ) توقف ( الأولان ) إن نوى وقع وإلا لا ( وفي مذاكرة الطلاق ) يتوقف ( الأول فقط ) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة والنية باطنة، ولذا تقبل بينتها على الدلالة لا على النية إلا أن تقام على إقراره بها، عمادية.
رد المحتار (3/ 300):
قوله ( أنت حرة ) أي لبراءتك من الرق أو من رق النكاح، وأعتقتك مثل أنت حرة كما في الفتح، وكذا كوني حرة أو أعتقي كما في البدائع، نهر.
 
 
البحر الرائق (4/ 62):
قالوا لو طلقها ثلاثا وأنكر لها أن تتزوج بآخر وتحلل نفسها سراً منه إذا غاب في سفر فإذا رجع
التمست منه تجديد النكاح لشك خالج قلبها لا لإنكار الزوج النكاح.
وقد ذكر في القنية خلافاً فرقم للأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بآخر؛ لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة، ثم رمز لشمس الأئمة الأوزجندي وقال: قالوا هذا في القضاء ولها ذلك ديانةً. وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثاً ثم جحد وحلف أنه لم يفعل وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضاً. قال يعني البديع: والحاصل أنه على جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل، انتهى.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

26/شوال المکرم/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب