73304 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
حضرت مفتی صاحب! میں آپ سے’’سرکاری فنڈز‘‘اوران کےاستعمال سےمتعلق چندسوالات کرناچاہتاہوں۔ امیدہے آپ ان معاملات کےتسلی بخش جوابات عنایت فرمائیں گے،اور ناجائز صورتوں کا درست متبادل بھی بتائیں گے۔
(۱)۔۔۔سرکاری اداروں کو مختلف ضروریات پوری کرنے کے لئے گورنمنٹ کی طرف سےفنڈز مہیا کئے جاتے ہیں۔گورنمنٹ کے قوانین کےمطابق سرکاری ادارے(سکول، کالج،ہسپتال، عدالتیں،پولیس ڈیپارٹمنٹ وغیرہ)اپنی ضرورت کا سامان ایسی فرمزسےخریدنےکےپابندہوتےہیں جورجسٹرڈہوں (یعنی وہ فرمز جو ایف ۔بی ۔آر میں انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس میں فائلر یا رجسٹرڈہوں)؛ تاکہ سرکاری رقوم میں خردبردکاامکان بھی کم ہواوران فرمز کی آمدن سےمتعلق معلومات بھی جمع ہوتی رہیں۔
بعض دفعہ ایساہوتاہےکہ حکومت کی طرف سے فنڈتاخیرسےجاری ہوتاہے جبکہ سرکاری مشنری کی تعمیر ومرمت میں رقم لگانےکی ضرورت فوری ہوتی ہے،جیسے ادارے کی پانی کی موٹر جل گئی تو فوری بنوانا ہے۔ بجلی کابل وقت پربھرنا، ورنہ میٹر کٹ جائے گا، وقتی ملازمین کوتنخواہ دینا، صفائی کرنے والے کو اجرت دینا، امتحانی پرچوں کی چھپائی، یو ۔پی۔ ایس خراب ہوگیا، دفتر و تدریس کےلیے کاغذ قلم خریدنا وغیرہ وغیرہ۔ ان ضروریات کی تکمیل کےلیے فنڈ وصولی تک انتظار کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں ادارے کےمنتظمین عموماًان ضروریات کواپنی ذاتی جیب سےاس نیت سےپورا کرتےہیں کہ جب فنڈزملیں گےتواپنی خرچ شدہ رقم وہاں سے کاٹ لیں گے۔
اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جو جو چیزیں ضرورتاً منگوائی گئی ہوتی ہیں، ان کابل ان کےپاس موجودہوتاہے،لیکن ظاہرہےکہ یہ سامان عام دکانداروں سےخریداجاتاہےجوعموماًرجسٹرڈ نہیں ہوتے؛ اس لیے خریداری کایہ بل،کسی رجسٹرڈ فرم کےپاس لےجایاجاتاہےجواپنے لیٹرپیڈ پریہ بل درج کرکےدیتی ہےجس سےیہ ظاہرہوتاہےکہ سرکاری ادارے نےاسی فرم سے یہ سامان خریداہے، حالانکہ حقیقت میں سامان کسی عام دکان سے خریداہوتاہے،بس اس فرم کاصرف پیڈ استعمال ہوتاہے۔ اس طرح یہ رجسٹرڈفرمزکسی اورجگہ سے کی گئی خرید اری کو اپنی طرف منسوب کرکے اپنےلیٹرپیڈ پر ادارے کے نام بل جاری کر دیتی ہیں اوراس کام پر اپنا کمیشن (جو 2،3 یا 5 فیصدتک ہوتاہے)اور ٹیکس(سیل ٹیکس،انکم ٹیکس وغیرہ) کی رقوم کاٹ کر بقیہ رقم اداروں کو دے دیتی ہیں اور اداروں کو اپنے لیٹر پیڈ پر بل جاری کر دیتی ہیں(ادارے اس رقم کو اوپر ذکر کردہ طریقے کے مطابق استعمال کرتے ہیں)یہ فرمز ٹیکس کی رقم بنک میں بھر کر رسیدیں،ان اداروں کےحوالےکرتی ہیں اوراس خریداری کاریکارڈ وغیرہ بھی تیار کر دیتی ہیں۔
اس طرح کرنےکی وجوہات:
(الف)۔۔۔ صرف بل بنا کر دینے یا اداروں کاان فرمز سے سامان نہ خریدنے کی ایک وجہ تو وہی ہوتی ہےجو اوپرذکرکی گئی(یعنی فنڈ ملنے میں تاخیراوروقتی ضروریات کی اپنی جیب سےفوری تکمیل)۔
(ب)۔۔۔ یا پھر دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ رجسٹرڈ فرم ،اس سامان کی قیمت مارکیٹ سےزیادہ لگاتی ہے۔حکومت کے پیسےبچانےکےلیے ہم لوگ عام مارکیٹ سے سستے داموں وہ اشیاء خریدلیتےہیں۔
(ج)۔۔۔ کبھی ایسابھی ہوتاہےکہ بل بنواتےوقت جان بوجھ کرسامان کی قیمت دوگنی لکھی جاتی ہےتاکہ فنڈ سے زیادہ پیسےنکلوالیےجائیں اوربعدمیں اگرفنڈختم بھی ہوجائےتوادارے کی ایمرجنسی ضروریات میں اس رقم کو استعمال کیا جا سکے؛ کیونکہ اگر اکاؤنٹ سے موقع بموقع رقم نکلوائی جائے تو پھر رجسٹرڈ فرم کا سہارا لینا پڑے گا جس کےلیےکافی وقت درکار ہوتا ہے اور ایمرجنسی ضروریات موقع پر پوری نہیں ہو پاتیں۔ اس لیے مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر مصنوعی یاخرید کادوگنابل بھی بنا یا جاتا ہےاور رقم وصول کرلی جاتی ہے،اب یہ ادارےکےسربراہ پرمنحصر ہے،اگرایماندارہوگاتو ضرورت کےمطابق ایمانداری سے خرچ کرےگااوراگر بےایمانی کرکےیہ رقم خودکھاجائےتواس کااپناایمان۔ یہ بھی ذہن میں رہےکہ بسااوقات اشیاء خریدکر دوگنابل بنوایاجاتاہےاور بعض دفعہ کوئی چیزنہیں خریدی جاتی بلکہ خالی خولی بل بنواکر اکاؤنٹ سے رقم وصول کی جاتی ہےاوراس کی وجہ مندرجہ بالاامور ہی ہوتےہیں کہ یاتومستقبل کی ضروریات کےلیے فرضی بل بنوایاجاتاہےیاپھررقم خودکھائی جاتی ہے۔
نیز اگر کوئی ادارہ ان فرمزسے سامان خرید ے توسامان کی سپلائی کر دیتی ہیں اوراسی میں اپنانفع بھی نکال
لیتی ہیں،جیساکہ ہردکاندارنفع رکھتاہے، اور اگر ان فرمز سے صرف بل بنوایا جائےتوپھراوپرذکرکردہ
طریقہ کار کےمطابق ٹیکس اورکمیشن لےکے مندرجہ بالا امور سرانجام دیتی ہیں۔
(1) کیاکسی رجسٹرڈفرم کے لئےیہ جائز ہےکہ کسی اورجگہ سے پہلے یا آئندہ کی جانے والی خریداری کو اپنی طرف منسوب کرکےاپنے لیٹر پیڈ پر فرضی بل جاری کردے اور کمیشن وصول کرے؟
(2) کیا خود ایسی رجسٹرڈفرم بنانا جائز ہے؟ کیا ایسی فرمز کی مارکیٹنگ کرنا یاان کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنا جائز ہے؟
(3) کیا کسی سرکاری ادارےکےسربراہ کےلیے یہ جائز ہے کہ وہ مستقبل کی ضروریات کےلیے اوور بلنگ کرے تاکہ بعد میں ضروریات کی تکمیل میں پریشانی نہ ہو؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ جن اداروں میں فنڈز دیر سے ملتے ہیں، ان کے ذمہ داران کو چاہیے کہ حکومت اور متعلقہ محکمہ کو اپنی مشکلات سے باقاعدہ آفیشل طریقے پر مطلع کریں، اور گفت و شنید کے ذریعے کوئی ایسا حل نکالیں جس میں ادارے کی ضروریات بر وقت پوری ہوں اور جھوٹ اور جعل سازی سے بھی بچاؤ ہو۔ اگر حکومت اور متعلقہ محکمے اس کے بعد بھی کوئی حل نہیں نکالتے تو ان اداروں میں کام کرنے والے ذمہ داران کے لیے کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جائز نہیں جس میں جھوٹ، غلط بیانی، جعل سازی، دھوکہ بازی اور قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب لازم آتا ہو۔
سوال میں ذکر کردہ صورت چونکہ جھوٹ، جعل سازی اور قانون کی خلاف ورزی پر مشتمل ہے، اس لیے ایسا کرنا شرعا ناجائز ہے۔ نہ فرم کے لیے اس طرح فرضی بل بنوانا اور اس پر کمیشن لینا جائز ہے اور نہ سرکاری افسران کے لیے اس کی گنجائش ہے۔ اگر فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کسی ادارے کے کام میں خلل آتا ہے تو ادارے میں کام کرنے والے افراد شرعا اس کے ذمہ دار نہیں۔ اس لیے اس بناء پر ان کے لیے جھوٹ، جعل سازی وغیرہ پر مشتمل طریقے اختیار کرنے کی گنجائش ثابت نہیں ہوگی۔
(2)۔۔۔ جس فرم کا مقصد جعلی کام ہو، اسے بنانا، اس کی مارکیٹنگ کرنا اور اس کے ایجنٹ کے طور پر کام
کرنا سب نا جائز ہے۔
(3)۔۔۔ اوور بلنگ کرنا جھوٹ، جعل سازی، اور قانون کی خلاف ورزی ہے، نیز اس سے کرپشن کا دروازہ کھلتا ہے، اس وجہ سے یہ کسی بھی طور پر جائز نہیں۔
حوالہ جات
۔
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
29/شوال المکرم/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |